اظہار رائے کی آزادی (!) اور مظاہرین پر فائرنگ

ہفتہ وار تبصرہ استعمار نے ہماری مظلوم ملت پر ایک عجیب رژیم   مسلط کی ہے۔ اس انتظامیہ کو  جمہوری حکومت کا نام دیا ہے اورآزادی اظہار رائے اس کے لیے اہم ترین مقصد منتخب کیا ہے۔ عوام سوچ رہی تھی کہ اظہار  رائے کی  آزادی کی برکت اب  اس پر قادر ہوجائینگے کہ اپنی مظومیت […]

ہفتہ وار تبصرہ

استعمار نے ہماری مظلوم ملت پر ایک عجیب رژیم   مسلط کی ہے۔ اس انتظامیہ کو  جمہوری حکومت کا نام دیا ہے اورآزادی اظہار رائے اس کے لیے اہم ترین مقصد منتخب کیا ہے۔ عوام سوچ رہی تھی کہ اظہار  رائے کی  آزادی کی برکت اب  اس پر قادر ہوجائینگے کہ اپنی مظومیت کی صدا کو حکام تک پہنچا دینگے اور حکام ان کے مسائل تک پہنچ پائینگے۔ مگر عوام کو معلوم نہیں تھا کہ استعمار نے اظہار رائے کی آزادی  کیساتھ ساتھ بیہوشی کے منشیات بھی لائے ہیں۔جس دن عوام کو اظہار رائے کی آزادی  دیجاچکی ہے،اسی دن حکام نے اپنے آپ کو بیہوش رکھا ہے،کانوں میں روئی رکھی ہے، اسی وجہ سے اگر اظہار رائےآزادی کی رو سے عوام جتنا فریاد بھی کریں، احتجاج کریں اور دن بھر نعرے لگاتے رہے، پھر بھی حکام ان کی آواز کو نہیں سنتی اور نہ ہی عوام کی مظلومیت کا ادراک کرسکتاہے۔

گذشتہ 18 برسوں میں کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتی کہ کسی عوامی احتجاج یا مظاہرے نے مطلوبہ نتیجہ حاصل کرلیاہو۔ وہ لوگ جن کے حقوق پامال ہوچکے ہیں، سڑکوں پر نکل آتے ہیں، سرکاری اداروں کے سامنے فریاد اور نعرہ بازی  کرتے ہیں، احتجاجی خیمے لگاتے ہیں، کئی دنوں تک فریاد کرتے رہتے ہیں، مگر  کوئی نہیں ہے، جو ان کی صدا کو سن کر اور ان کے درد کا احساس کریں، یہاں تاکہ تھک کر  اپنے احتجاج سے مایوس ہوکر خستہ کن حالت میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

اس صورت حال کی توسیع اور تکرار کے نتیجے میں آخرکار کابل انتظامیہ کے حکام نے اپنے آپ کو عوام کے ہر  قسم کی تنقید سے مستثنی قرار دیا ہے۔ ان کی بدعنوانی، ظلم اور غبن کے متعلق جو بھی کہاجاتا ہے، انہیں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ اپنے آپ کو غیرذمہ دار اور واجب الاحترام سمجھتے ہیں، اگر وہ بازار نکل آئیں، تو عوام کو چاہیے کہ ان کے سروں پر چھتری تھان لے اور اگر بالفرض عوام احتجاج کی صدا بلند کریں، تو حکام خود کو یہ حق دیتا ہے کہ گولیوں سے انہیں جواب دیں۔

گذشتہ چند دنوں میں صوبہ غور اور صوبہ لوگر کےضلع برکی برک میں ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں، ہماری مظلوم ملت کے خلاف مغرور حکام بہت ظلم اور تکبر سےنمٹا۔لوگر میں امداد حاصل کرنے کے دوران اکھٹے ہونے والے غریب  افراد جن میں اکثریت بوڑھوں اور خواتین کی تھیں،حکام کی جانب سے  مارپیٹ کی حد تک تحقیر اور توہین ہوئے۔

صوبہ غور کے مرکز میں عوام نے ایک بیرونی فلاحی ادارے کے امداد کے منصفانہ تقیسم کی خاطر احتجاج کیا تھا، جن پر حکام نے بےدریغ فائرنگ کی،جس میں 20 سے زائد شہری جان بحق اور زخمی ہوئے۔ اس صورتحال سے معلوم ہورہا ہے کہ اب  بیان کی وہ جھوٹی آزادی بھی باقی نہ رہی، جب لوگ فریاد کرتے اور حکام بےحسی کے نیند میں ڈوبے رہتے۔ اب جمہوریت کا جبر اس مقام تک پہنچا ہے کہ عوام کو صرف فریاد اور صدا بلند کرنے کا حق بھی نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی احتجاج کریں، تو انہیں گولیوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ظالم حکام کے ان وحشناک اعمال کی امارت اسلامیہ شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور اپنی معزز ملت کے خلاف اسے عظیم تر جرم سمجھتی ہے۔ عین حال میں اہل وطن کو یاد دلاتی ہے کہ یہی بیان کی جھوٹی آزادی کا حقیقی چہرہ ہے۔احتجاج اور بیان کی وہ آزادی جو ملت کے درد کو سکون نہ کریں، وہ جرم سے بدتر اور قابل مذمت ہے۔