افغانستان کا مقدمہ اور علماء دین کی ذمہ داری

ہفتہ وار تبصرہ جیساکہ دو سال قبل امریکی جنرل نیکولسن کی (مذہبی دباؤ) کے نظریہ کی بنیاد پر دنیا کے مختلف علاقوں سے چند علماء کی آوازیں بلند ہورہی تھی اور امارت اسلامیہ پر زور دیا کہ امریکی جارحیت کے خلاف فرض عین جہاد سے دستبردار ہوجائے۔  اب ایک بار پھر وہی سلسلہ شروع ہوا […]

ہفتہ وار تبصرہ

جیساکہ دو سال قبل امریکی جنرل نیکولسن کی (مذہبی دباؤ) کے نظریہ کی بنیاد پر دنیا کے مختلف علاقوں سے چند علماء کی آوازیں بلند ہورہی تھی اور امارت اسلامیہ پر زور دیا کہ امریکی جارحیت کے خلاف فرض عین جہاد سے دستبردار ہوجائے۔  اب ایک بار پھر وہی سلسلہ شروع ہوا ہے اورملک کے اندرو   بیرون چند علماء  افغان تنازعہ کے پس منظر سے آگاہی کے بغیر امارت اسلامیہ سےیک جانبہ تنزل کا مطالبہ کررہا ہے۔

اگر ملک میں چند علماء برسراقتدار انتظامیہ کی جانب سے بھرتی کیے جاتے ہیں ۔ زر و زور کے ذریعے اس طرح اظہارات کرنے پر مجبور کیے جاتے ہیں، دنیا کے دیگر مقامات میں چند علماء کرام افغانستان کے حوالے سے معلومات کی فقر سے روبرو ہیں۔  انہیں افغانستان کے تنازعہ سے صرف اس حد تک یقین ہے، جسے  مغربی عالمی ذرائع ابلاغ سے سناہے ۔  ان کے پاس افغانستان کی تاریخ اور  مذہبی تشخص کے بارے میں معلومات ہیں اور نہ ہی یہاں دیانت اور بےدینی کے درمیان شروع ہونےوالے چالیس سالہ مقابلے کے پس منظرسے  واقف ہیں۔

اس بارے میں انہیں خبر نہیں ہے کہ بیرونی جارحیت افغانستان کے تنازعہ کا واحد  پہلو ہے۔ اس کے علاوہ ملکی سطح پر نظام کا ظہور اور سیاسی حاکمیت، ثقافت، تعلیم و تربیہ اور حکومت کے امور وہ مسائل ہیں، جس کے بارے میں گذشتہ 40 سالوں سے نزاع موجود ہے۔ اسلام پر حقیقی یقین  رکھنے والی افغان قوم کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت اور سیاست کے تمام بنیادیں اسلامی معیار پر برابر ہوجائے۔ یہی ہمارے روس کے خلاف جہاد  کے شہداء کی آرزو بھی تھی اور یہی ہمارے موجودہ جہاد کا وہ اہم ہدف ہے، جسے کسی صورت میں بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

تو لہذا  اندرون ملک اور دنیا کے ہر کونے میں افغان تنازعہ سے دلچسپی رکھنے والے علماء کرام کو سب سے پہلے ہماری قوم کے جہادی داعیہ کو سمجھنا چاہیے۔  چند اجنبی پرور حکمرانوں اور زرخرید میڈیا کی خوشی کی بجائےاسلام کی سربلندی اور ہماری مؤمن ملت کی مقدس امیدوں اور امنگوں کو  برتر سمجھے اوراسی پیمانے سے افغان مسئلہ کا جائزہ لینا چاہیے۔

اس کے علاوہ افغانستان کی طرح اہم تنازعات کے حوالے سے فیصلے اور من پسند فتاوی جاری کرنے سے نہ صرف اسلام اور مسلم امہ سے بڑی غداری ہے، بلکہ  افغان مجاہد اور محب دین قوم کے حق میں عظیم ظلم ہے۔ہماری مجاہد قوم نے اسلامی نظام کے لیے عظیم قربانیاں دیں، یہ ان کا حق ہے کہ اس انعام کو حاصل کریں۔

ہمارے خیال میں دنیا کے علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ شعائراللہ کی سربلندی، شریعت کے نفاذ اور اسلامی نظام کے حاکمیت کےلیے جدوجہد کریں۔ اپنی زبان، قلم، علمی صلاحیت اور سماجی وجاہت اسی راہ میں استعمال کریں۔  کیوں کہ عالم دین کا یہی فریضہ ہے کہ دین کے ارتقاء اور کامیابی کے لیے کوشش کریں۔ ایسا نہ ہو کہ حق و باطل کے معرکہ میں باطل کا دامن پکڑلے اور اسلامی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔