امریکی جنریلوں کا  بے  جا موقف

‏‏2016‏-07‏-20 حالیہ  دنوں  امریکی  جنریلوں کی  خفیہ   آمد ورفت  زیادہ ہوگئی ہے۔گذشتہ ہفتے  امریکا کے سیکرٹری دفاع  خفیہ  طور پر کابل  آئے اور  اپنے کٹھ پتلیوں  کے ساتھ ملاقات کی ۔ بعد میں  اعلان کیا  گیا کہ  اب   امریکی  فوجیوں کو  فضائی  اور زمینی کاروائی  کے مکمل اختیارات حاصل  ہوں  گے۔اس کے بعد  […]

‏‏2016‏-07‏-20

حالیہ  دنوں  امریکی  جنریلوں کی  خفیہ   آمد ورفت  زیادہ ہوگئی ہے۔گذشتہ ہفتے  امریکا کے سیکرٹری دفاع  خفیہ  طور پر کابل  آئے اور  اپنے کٹھ پتلیوں  کے ساتھ ملاقات کی ۔ بعد میں  اعلان کیا  گیا کہ  اب   امریکی  فوجیوں کو  فضائی  اور زمینی کاروائی  کے مکمل اختیارات حاصل  ہوں  گے۔اس کے بعد  انہوں نے   جنرل نکولسن کے اختیارات میں  مزید  توسیع کا اعلان کیا جس پر افغان کٹھ پتلیوں نے  خوشی کا اظہار کیا۔

گذشتہ دن  بھی امریکا کے چئیر مین     جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف  خفیہ طورپ کابل  آئے ،انہوں نے اپنے فوجیوں کا  حو صلہ  بلند رکھنے کیلئے  طالبان کے  عمری آپریشن کو  غیر نتیجہ کن  قرار دیا اور کہا کہ طالبان  اب  امریکی اور  افغان فوجیوں سے  لڑنے کی قوت  نہیں   رکھتے۔

زمینی  حقائق کو دیکھتے ہوئے  در اصل   جارحیت  پسند وں  کو افغانستان میں خوفناک شکست کا سامنا ہے اور  وہ  اپنے کٹھ پتلیوں پر  مزید اعتماد کی پوزیشن میں  نہیں ہیں کیونکہ  وہ طالبان کے خلاف لڑنے کی سکت نہیں رکھتے  اور  بہت جلد کابل کا کٹھ پتلی ادارہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ  امریکا اس جنگ  میں اپنی  پالیسی  ہر  وقت   تبدیل کرتا  رہتاہے اور  اپنے اعلی ٰ فوجی عہدیداروں کو وقتاً فوقتا افغانستان کے دورے پر بھیجتے ہیں  تاکہ جنگ سے  اکتائے ہوئے اپنے فوجیوں کا  حوصلہ  بلند رکھ  کر انہیں  میدان  جنگ میں  اتارا جائے۔

8 ہزار امریکی فوجیوں  کو ایک مرتبہ پھر   جنگ میں  مکمل اختیارات سونپنے کا  اعلان  صرف اس مقصد کیلئے  ہے  کہ  وہ اپنے فوجیوں کا حوصلہ   بلند رکھیں۔ ورنہ  ڈیڑھ لاکھ  فوجی گذشتہ  پندرہ سالوں سے  کچھ نہ کرسکے  تو  8 ہزار کونسا  تیر ماریں گے؟ یقیناً اس  قسم کے  اقدامات سے  امریکا صرف ایک فکری جنگ  کو  طول  دینے کی  جدوجہد میں ہے۔

 جنرل جوزف نے کہا کہ طالبان کے  حملوں  میں ماضی کی نسبت  کمی  آئی ہے کیونکہ  طالبان کی موجودہ قیادت کمزور ہے۔ حقیقت یہ  ہے  کہ یہ  بات بھی سوائے   جنگی  چال کے اور کچھ نہیں۔ کیونکہ   امیر الموّمنین منصور صاحب  تقبلہ اللہ کی شہادت کے بعد کابل میں  دو بڑے  حملے ، اور اب  چند دن قبل  بدخشان،قندوز، روزگان،ہلمند،فاریاب،ننگرہار اور قندہار میں مجاہدین کی جانب سے دشمن پر  تباہ کن حملے کئے  گئے۔  آج ہی  ہلمند کا ضلع  سنگین مکمل  طورپر  فتح ہوا، قندوز کا قلعہ زال  ضلع فتح کی دہلیز پر ہے او ر صوبہ بدخشان  کا ضلع راغستان اور ضلع خاش مجاہدین کے محاصرے میں ہیں۔ مختصر یکہ  ملک کے دوسرے علاقوں میں مجاہدین  کی کاروائیاں ماضی  کی نسبت بہت زیادہ  بڑھ   گئی  ہیں۔

اس سے قبل  جنرل  نکولسن نے کہا  کہ ہم طالبان پر حملوں میں  اس لئے تیزی لارہے  ہیں تاکہ   وہ  مذاکرات کی میز  پر  آئیں۔

مجاہدین  سے اس  قسم کے احمقانہ مطالبات اس  بات کی واضح  دلیل ہے  جارحیت پسند اور  ان کاسہ  لیس    مجاہدین کے خلاف لڑنے سے اکتا  گئے ہیں اسی لئے  امن  کیلئے ایسے نامعقو ل دلائل اور وجوہات    پیش کرتے ہیں جن کاحقیقت سے دور کابھی کوئی  تعلق نہیں ہوتا۔

کیا امن  اس طرح آتا ہے کہ  بمباریاں  اور قتلِ عام کیا جائے یا  انسانی حرمت کے پیش نظر  ایک  معقول  اور  مروجہ طریقہ  اختیار کیا جائے۔

جارحیت پسند اور ان کے کٹھ پتلی یہ  بات ذہن نشین کرلیں کہ  افغان قوم کبھی بھی   ظلم وستم  کے آگے  سر نہیں جھکاتی۔جارحیت پسندوں کو  چاہئے کہ اس قسم کے  احمقانہ  موقف  سے   ہمیشہ کیلئے گریز کرتے ہوئے  ایک معقول  اور مروجہ طریقے کے ذریعے امن  کی بات  کریں۔