امیرالمومنین ملا اخترمحمد منصور رحمہ اللہ تعالیٰ کی شہادت

ماہنامہ شریعت کا اداریہ   یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے یہاں کی ہر چیز ایک نہ ایک دن اپنے وقت مقررہ پر فناہوجانے والی ہے ۔بڑے بڑے نامور ،جید علماء ،اولیاء اللہ ،ائمہ کرام  حتی کہ دنیا کی سب سے برگزیدہ ہستیاں  انبیاء کرام علیہم السلام بھی […]

ماہنامہ شریعت کا اداریہ

 

یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ نہیں ہے یہاں کی ہر چیز ایک نہ ایک دن اپنے وقت مقررہ پر فناہوجانے والی ہے ۔بڑے بڑے نامور ،جید علماء ،اولیاء اللہ ،ائمہ کرام  حتی کہ دنیا کی سب سے برگزیدہ ہستیاں  انبیاء کرام علیہم السلام بھی ہمیشہ دنیامیں  نہ رہے اوراپنے اپنے فرائض منصبی اداکرکے داربقا کورخصت ہوئے ۔

ہرسانس لینے والے کی موت اس کی فنا ہے اور ”کل نفس ذائقۃ الموت ” کے تحت کوئی بھی  انسان  اس فناسے مستثنیٰ نہیں ہے اوراس فنا کا فیصلہ صرف پروردگارعالم ہی کے اختیارمیں ہے  وہی جانتاہے کہ کس نے  کب، کہاں اورکیسے فناہوجاناہے ،یہ سب پہلے سے لکھا جاچکاہے اس میں نہ   لمحہ بھر کی تاخیرہوسکتی ہے اورنہ ہی تقدیم ۔اسی کانام تقدیر ہے جس پر ہرمسلمان کو مکمل اورمضبوط یقین ہے اوریہی یقین  ایمان کا وہ حصہ ہے جس کے بغیر ایمان قابل اعتبارنہیں رہتا۔

امیر المومنین ملااخترمحمدمنصور رحمہ اللہ بھی ایک انسان تھے وہ بھی اسی قانون قدرت کے تحت وقت اورجائے مقرر پر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ہمیں اپنے رب کایہ فیصلہ بسروچشم قبول ومنظورہے ۔ اوراس پرراضی رہنا اپنی شرعی ذمہ داری سمجھتے ہیں،  باقی رہی بات ان کی وفات   پرمسلمانوں کےغم ،دکھ اوردرد کی تو یہ ایک طبعی اورفطری چیز ہونے کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کی آپس میں محبت ،اخوت اور ہمدردی کی نشانی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنےبندوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے رکھی ہے ۔جس کی وجہ سے   ایسی صورتحال میں آنکھیں پرُ نم  اوردل افسردہ ہوجاتے ہیں ۔

دورحاضرمیں  پوری اسلامی دنیا ایک حساس اورنازک دور سے گزررہی ہے ،اسلامی دنیا ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے ،مختلف حوالوں سے انتشار ،افتراق اور تقسیم کا شکار ہے ،کسی بڑی واحد قیادت سے  محروم ہے ،کئی اسلامی ممالک میں خانہ جنگی عروج پر ہے ،بیرونی قوتوں سے اپنی دفاع کی طاقت کھوچکی ہے ، اکثرحصے عسکری  اوراقتصادی لحاظ سے کمزور ہیں  اوراسی  کمزوری ہی کی حالت میں  خونخوار اوروحشی امریکہ کی سربراہی میں بننے والاتاریخ کا سب سے بڑا جنگی اتحاد بھی میدان میں  کودپڑا  ،اوربڑی دیدہ دلیری سے اسلامی دنیا کے خلاف جنگ  کا اعلان کیا اور پہلی فرصت میں افغانستان پر حملہ کرکے عملاً اس جنگ کا آغاز کردیا ۔

اسلامی حکمرانوں  کی غلط پالیسیوں کی  وجہ سے اسلامی دنیامیں بڑی  مایوسی پھیل گئی تھی ،کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ کوئی اتنی بڑی طاقت کے مقابلے کے لیے میدان میں اترے گا ، اوریہ کہ مسلم دنیا کاکوئی حصہ صلیبیوں کے  ناپاک قدموں سے محفوظ رہ سکے گا ۔پھر جب مایوسی اور ناامیدی کے اس عالم میں طالبان مجاہدین اپنے ٹوٹے پوٹے وسائل کے ساتھ دنیا کی اس بڑی طاقت کے مقابلے کے لیے میدان میں اترے تو پوری اسلامی دنیا کے مخلص مسلمانوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑگئی  لیکن ساتھ ہی ساتھ کسی  کو بھی یہ یقین نہیں تھا کہ وسائل کے لحاظ سے کمزور گنتی کے یہ چند مجاہدین اتنی بڑی  طاقت  سے لمبے عرصے تک برسرپیکاررہ سکیں گے ،وطن کی آزادی اور دشمن کو شکست دینا تو بہت دورکی بات تھی ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی مدداورمرضی شامل رہی اورلوگوں نے دیکھا کہ وسائل کے اعتبار سے کمزور گنتی کے انہی چند مجاہدین نے نہ صرف ایک لمبے عرصے تک اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کیا بلکہ  دشمن پر ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ وہ سراٹھانے کے قابل نہ رہا ۔حالات کے اس رُخ کودیکھتے ہوئے  دنیا کے سارے مسلمانوں کی نگاہیں طالبان  کی طر ف ہوگئیں اور انہیں  یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کے بڑے اورعالمی دشمن کی شکست اور اس کے خونی پنجوں سے مسلمانوں کی رہائی طالب  کے وجود اور امارت اسلامیہ کی بقا سے  وابستہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان  امارت اسلامیہ کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوران کے دلوں میں  امارت اسلامیہ کے زعیم کابہت بڑامقام اورمرتبہ  اورطالبان کے ساتھ  بے لوث محبت ہے ۔وہ طالبان کی پیش قدمیوں اور کامیابیوں پر خوش ہوتے ہیں اور ان کے درد اورغم پر دکھی اور غمگین ۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ملااخترمحمدمنصور  رحمہ اللہ کی شہادت پر صرف افغانستان کے لوگ  نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا غم میں مبتلا ہے ۔ان کی جدائی پر غم اوردکھ ایک طبعی اورفطری امر ہے لیکن انہیں اللہ تعالیٰ نے  جو موت دی ہے وہ ایسی موت ہے جس کی تمنا بار بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اوراکثر وبیشتر فرمایا کرتے تھے کہ ” میں چاہتاہوں کہ  میں اللہ کی راہ میں  بار بارشہید اورباربار زندہ کیا جاؤں “۔

یہ درست ہے کہ پوری اسلامی دنیا  کی اتنی بڑی شخصیت  کی اسلام اورمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن کے ہاتھوں شہادت  نے طبعی  لحاظ سے پورے عالم اسلام کو دکھی کردیا ہے لیکن یہ  بھی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جس قدردشمن بڑا ہو اتنی شہادت بھی عظیم اوربڑی سمجھی جاتی ہے ۔راہ حق کا ہرمجاہد دین اسلام اورمسلمان ملت کی دفاع اورسربلندی  کے لیے  اللہ کی راہ میں جہاد کرتاہے یہی ان کا اصل ہدف ہوتا ہے  لیکن اس راہ میں شہادت بھی ان کی سب سے بڑی تمنا اورآرزوہوتی ہے  ،ملااخترمحمدمنصورصاحب رحمہ اللہ بھی راہ حق کے  ایک ایسے مجاہد تھے  جنہوں نے  اپنی زندگی کا تقریبا نصف حصہ اپنے ہدف اوراپنی تمنا کے حصول کے لیے راہ خدامیں جہاد کرتے ہوئے گزارا ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں مرادیں پوری کردیں ، وہ اپنے ہدف کو بھی حاصل کرگئے اور ان کی عزیز از جان تمنا  اورآرزو بھی پوری ہوگئی ۔

امیرالمومنین ملااخترمحمدمنصور رحمہ اللہ  پر ان کے پیش رو ،عظیم صاحب فراست اورپوری ملت  کے غمخوار  ،مدبر اور جرات وبہادری کے پہاڑعالی قد رامیرالمومنین ملامحمد عمرمجاہد رحمہ اللہ  کا اعتماد ،اپنے تمام احباب میں سے صرف انہی کا اپنی نیابت کے لیے انتخاب اور پھر امارت اسلامیہ کے سرکردہ قائدین  ،مجاہدین اور عام مسلمانوں کا ان کی امارت پر اتفاق واتحاد ان کے لیے دنیا میں  ایک قابل فخر مقام  اورخدمت کا ایک بڑا موقع تھا  ،  توجومسلمان ،مجاہدین اور امارت اسلامیہ کے قائدین دنیا میں ان کے لئے اتنے بڑے مقام پر خوش تھے تو وہ آخرت میں بھی ان کے لیے  بڑے رتبے اورمقام کے خواستگا رتھے  اوراللہ تعالیٰ نے دنیا کی سب سے وحشی اورخونخوار ظالم کافرامریکہ کے ہاتھوں انہیں شہادت دے کر وہ مقام بھی دے دیا ۔

جہاں تک ان کی شہادت سے   امارت اسلامیہ کو نقصان  پہنچانے اورامریکہ کی فتح یا مذموم اہداف تک رسائی کی بات ہے تو یہ حقیقت ساری دنیا بہت پہلے سے جانتی ہے کہ مجاہدین رہنماؤں کی شہادتوں سے غاصب قوتوں کے خلاف جاری جہاد ی عمل میں کسی قسم کانقصان ،توقف اور کمی نہیں آتی اس لیے کہ یہ جہاد اوراس جہاد میں دی جانے والی یہ بڑی قربانیاں  کسی شخص کے لیے نہیں  کہ اس کے آنے جانے سے اس میں فرق آتاہو ، یہ جہاد جس ذات کی خوشنودی کے لیے جاری ہے وہ ہمیشہ زندہ وجاوید ہے اورجب تک دنیا قائم  ہے تب تک یہ جہاد بھی جاری رہےگا ” حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ ”

گنتی کے اعتبار  سے کم اور وسائل کے لحاظ سے کمزور طالبان مجاہدین  کا اتنے بڑے عرصے تک دنیا کی بڑی اتحادی قوت  کامقابلہ کرنا  اوردشمن کو شکست کے قریب لانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہی ممکن ہو اہے  لیکن اگرہم اس کے اسباب پر غورکریں تودنیا کے بڑے بڑے  ماہرین ،تبصرہ نگار اورسیاستدان کہتے ہیں کہ طالبان کی صفوں میں وحدت اور ایک امیر کی قیادت پر اتفاق واتحاد  طالبان کی کامیابی اور کامرانی کا راز ہے ۔ الحمدللہ ! یہ وحدت اورواحد قیادت پر اتفاق اب بھی ویسے ہی ہے جیسے پہلے تھا۔

ملامحمد عمر مجاہد رحمہ اللہ جوامارت اسلامیہ کے زعیم اور موسس تھے ،ان کی وفات ایک بڑا حادثہ تھا ،دشمن نے میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے بڑا پروپیگنڈا کیا کہ اب طالبان مزید متحد نہیں رہ سکتے ، ان میں گروہ بندیاں ہوں گی ، اکثر یت ہتھیار پھینک دے گی اور اب ان میں مزید جنگ جاری رکھنے کی سکت نہیں رہے گی وغیرہ وغیرہ ۔

کمزوراورضعیف الایمان  مسلمان بھائی ان کے پروپیگنڈوں سے متاثرہورہے تھے ، عام مسلمانوں میں مایوسی اورناامیدی کی سی فضاقائم تھی ،مجاہدین کے درمیان افتراق وانتشار کی افواہیں گردش کررہی تھیں لیکن آفریں ہو امارت اسلامیہ کی قیادت  پر کہ انہوں نے  اس حساسیت کا ادراک کرلیا اور مجاہدین کی صفوں میں اتحاد واتفاق کو برقرار رکھنے اورایک ہی امیر کے تحت رہنے کے لیے دن رات کوششیں شروع کردیں ،اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو قبول کیا ،ان کی مددکی  اوریوں مجاہدین کی صفوں میں اتحاد واتفاق کی فضا پہلے کی طرح قائم رہی ،سب مسلمان اسی امیر پر متفق ہوئے جنہیں امیرالمومنین ملامحمدعمر مجاہد رحمہ اللہ نے اپنی زندگی میں اپنا نائب منتخب فرمایا تھا ۔

سچی بات  ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امیر المومنین ملامحمد عمررحمہ اللہ کو بڑی فراست اورذہانت سے نوازاتھا ،انہوں نے اپنے حلقہ احباب میں سے اپنی نیابت کے لیے جس شخص کا انتخاب کیاتھا  اورجن پر سب سے زیادہ اعتمادتھا تواس شخص  نے اس اعتماد اوربھروسے کی لاج رکھی اوروہی کیا جس کی ان سے امید کی جاسکتی تھی ،حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری بڑی خوش اسلوبی اور جانفشانی سے اداکی ۔امارت اسلامیہ کی تعمیر وترقی کے لیے دن رات محنت کی ،قابل قدراقدامات کیے ،عالی اہداف اور قومی مفاد کی خاطر کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا ،مجاہدین کے درمیان اتحادواتفاق کی طرف پور ی توجہ دی ، وہ  “اشداء علی الکفار رحماء بینہم ” کا عملی نمونہ تھے ۔بیعت میں تاخیرکرنے والوں کی توبات ہی نہیں وہ لوگ  جنہوں سے علی الاعلان بیعت سے انکار کیا تھاآخردم تک ان کے خلاف کارروائی توکیا زبان سے کوئی سخت لفظ بھی ان کے لیے نہ نکلا ۔ جبکہ  دشمن کے مقابلے میں روز اول  سے جام شہادت نوش فرمانے تک  اپنے موقف پر ڈٹے رہے  ۔ نہ  انہوں نے بیرونی غاصبوں کے مطالبات تسلیم کئے ، نہ کبھی ان کی طاقت اورزورآزمائی سے ڈرے ،نہ مکارلوگوں کی سازشوں کا شکارہوئے اور نہ ہی   کسی کے کہنے پر اپنے موقف سے دستبردار ہوئے ۔ان کی امارت کا عرصہ مختصر تھا لیکن اس مختصرعرصے میں انہوں نے  مضبوط عزم ، پختہ ایمان اور بہادری کے ایسے کارنامے  انجام دیے  جن پر مخلص مسلمانوں اورمجاہدین کو ہمیشہ فخر رہے گا  اورجنہیں تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی ۔امیرالمومنین رحمہ اللہ کے مقام ومرتبہ سے شائد بعض متعصب لوگ انکار بھی کریں گے لیکن تاریخ ان کے مقام اورمرتبہ کو چھپا کرنہیں رکھ پائے گی  اور ان شاء اللہ آنے والی نسلوں کے لیے سنہرے الفاظ میں ان کا تذکرہ کرے گی ۔

رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ