جنگ کی شدت کا ذمہ دار کون ہے؟

آج کی بات ایک ایسے وقت میں کہ ایک دن بعد ماسکو اور پھر ترکی میں امن کے بارے میں کانفرنسز منعقد ہوں گی، کابل انتظامیہ نے ایک بار پھر امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے سازشوں، چھاپوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ درج ذیل سطور میں چند واقعات بطور […]

آج کی بات

ایک ایسے وقت میں کہ ایک دن بعد ماسکو اور پھر ترکی میں امن کے بارے میں کانفرنسز منعقد ہوں گی، کابل انتظامیہ نے ایک بار پھر امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لئے سازشوں، چھاپوں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ درج ذیل سطور میں چند واقعات بطور مثال پیش کریں گے۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ آج صبح نامعلوم مسلح افراد نے بغلان میں یونیورسٹی کے ایک لیکچرر کی کار پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں ڈرائیور اور ایک طالب علم موقع پر جاں بحق اور یونیورسٹی کے دو پروفیسرز زخمی ہوگئے۔
= گزشتہ روز کابل میں ایک دھماکے میں ڈیڑھ درجن سے زیادہ افراد شہید اور زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری این ڈی ایس کی ذیلی شاخ داعش نے قبول کی۔
پانچ دن پہلے کٹھ پتلی حکومت کے وحشی فوجیوں نے صوبہ ننگرہار کے ضلع خوگیانی کے ٹٹنگ کے علاقے میں رات کے اندھرے میں ایک دینی مدرسہ پر چھاپہ مارا، اور مدرسے کے ایک استاد سمیت دس حفاظ کرام کو بے دردی سے شہید کردیا۔
پانچ مارچ کو قندھار کے ضلع پنجوائی کے علاقے ریگی میں دستاربندی کی تقریب پر دشمن نے مارٹر فائر کیے جس کے نتیجے میں 7 حفاظ کرام شہید اور زخمی ہوگئے۔
د ہفتے قبل کابل انتظامیہ کی فرسز نے صوبہ بدخشان کے اضلاع دروزان ، نسئ ، کوف اور دیگر اضلاع کے عوام کو سپلائی لائن بند کر دی، جس کی وجہ سے عوام فاقہ کشی پر مجبور ہوئے۔
دو دن سے سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں اور ویڈیوز گردش کر رہی ہیں کہ قندھار کے اضلاع ژڑی اور پنجوائی میں سڑک کے قریب شہریوں کے مکانات اور باغات کو مسمار کر دیا گیا ہے۔
چند روز قبل سفاک دشمن نے صوبہ فاریاب کے ضلع المار میں (+CHC) کے نام سے ایک ہسپتال پر فضائی حملہ کیا، اور تباہی مچا دی۔ نیز ننگرہار کے علاقے شیرزاد فیتلو میں بھی دشمن نے ایک کلینک میں فوجی چوکی قائم کی۔
دشمن نے سب سے زیادہ درندگی کا مظاہرہ صوبہ پروان میں کیا جہاں پر دو مجاہدین کو اس قدر درندگی کے ساتھ شہید کیا گیا کہ ان کی لاشوں کو درختوں کے ساتھ الٹا لٹکا دیا گیا اور ان کی توہین کی گئی۔
دوسری جانب لوٹ مار کا بازار بھی گرم ہے، کابل انتظامیہ کے اعلی حکام نے 500 ملین ڈالر مالیت والے طیاروں کو 40000 ڈالر فروخت کر کے قومی اثاثوں کی لوٹ مار کر دی، نیز صرف تین مہینوں میں 329 کلو سونا اور 60 ملین ڈالر حیرتان بندرگاہ کے راستے ملک سے باہر منتقل کر دیا۔
اسی طرح کے سیکڑوں دیگر واقعات، جو کٹھ پتلی حکومت نے عام شہریوں اور املاک کے خلاف انجام دیئے ہیں حالانکہ ان دنوں مجاہدین کی جانب سے دشمن کے خلاف کوئی آپریشن نہیں ہوا ہے۔
اب دنیا خود ہی فیصلہ کرے کہ کون ظلم کر رہا ہے؟ کس نے جنگ کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے اور کون امن کا دشمن ہے؟ کون افغان عوام کا قاتل اور چور ہے؟