شہادت خوشخبری اور سعادت

سباؤن افغان اعوذ بالله من الشيطن الرجيم  بسم اللہ الرحمن الرحیم فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ ؕ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۷۴ {النساء} انہیں اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے، جو دنیا کی زندگی بیچ کر آخرت خرید لیتے ہیں اور جو اللہ […]

سباؤن افغان

اعوذ بالله من الشيطن الرجيم

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ ؕ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا۝۷۴ {النساء}

انہیں اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے، جو دنیا کی زندگی بیچ کر آخرت خرید لیتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں لڑے پھر مارا جائے یا غالب آئے تو عنقریب ہم اُسے بڑا ثواب دیں گے۔

جہاد اسلام کے اہم فرائض میں سے ایک ہے۔ جہاد ایک ایسا  عمل ہے، جس میں مسلمان کے لیے غلبہ یا شہادت دونوں میں کامیابی  اور  کامرانی ہے۔ احادیث میں   جہاد کی  بہت اہمیت بیان کی  گئی ہے اور اسے  اتنا  اہم  قرار دیا گیا ہے،  جس  طرح  اونٹ  کے جسم  میں  کوہان اہم ہے۔ کیوں کہ   جس  طرح  کوہان کے بغیر  اونٹ کا زندہ  رہنا  محال  ہے، بالکل  اسی  طرح جہاد کے  بغیر اسلام کی  بقا بھی  مشکل ہے۔جہاد کا راستہ  آغاز سے   انجام  تک بھوک  و پیاس، تکالیف،  قید وبند اور  شہادتوں  سے  ڈھکا ہوا ہے۔ اس راہ کو سفر  کے لیے متعین کرنے  والا ہر شخص ابتدا سے ہی شہادت کے لیے ذہنی  طور پر  تیا ر ہوتا ہے۔ اگر وہ  اس راہ میں  شہید ہوتا ہے  تو  بھی  اپنا مقصد  حاصل  کر لیتا ہے  اور اگر  دشمن  پر  غالب آتا ہے   تو  بھی اپنے  ہدف تک  پہنچ  چکا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو جو  پہلے دن  سے ہی  شہادت کی موت کے لیے اس  راہ  پر سفر کا  آغاز کر چکے ہوں،  ان   کوموت سے  ڈرانا پاگل  پن  نہیں  تو  کیا ہے۔

حکومتی اہل کاروں کی حقیقت یہ  ہے کہ  وہ   کبھی  اس پاک  راہ میں  نکلے  نہیں  ہیں۔   اس لذت  کا اندازہ صرف وہ  لوگ  کر سکتے ہیں،  جو  اعلا ئے کلمۃ اللہ  کے لیے دشمنانِ اسلام کے ساتھ براہِ راست لڑائیوں اور  دوسری  تکنیکی  کارروائیوں میں  حصہ لے  چکے ہوں۔ ہمارے فدائی  مجاہدین  ایک  ایسے  معرکے سے  جس کا اختتام ان کی شہادت پر  ہوتا ہے، اُن کی اپنے ساتھیوں  کے ساتھ  فون  پر ہونے  والی  گفتگو  ریکارڈ پر موجود  ہے،  جس میں فدائی مجاہدین کا لہجہ اور  بلند حوصلہ  دیکھ کر  عقل  دھنگ  رہ  جاتی  ہے۔جب کہ   دوسری جانب باطل  صف  کے  کٹھ پتلی  جنگجوؤں کے  ٹیلیفونک  رابطوں کی گفتگو بھی   مجاہدین نے ساری دنیا کو  سنوا دی  ہے۔ یہاں  ان  اہل کاروں کے مرنے  کا خدشہ  نہایت کم ہوتا ہے،  لیکن   ان کی  گالیوں،فریاد اور رونے کی  آوازوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ   گویا  ان پر  قیامت ٹوٹ  پڑی  ہو۔

اکیسویں  صدی کے  مخبوط  الحواس مفکر ین مجاہدین کو شہادت سے خوف زدہ کرنے کی  کوشش میں ہیں، لیکن  انہیں کیا    پتہ  کہ تختہ دار پر کھڑا نوجوان اس  ہدف کے لیے کتنا تڑپتا  رہا ہے۔ انہوں نے اس  ہدف  تک   پہنچنے کے لیے کتنی  تکالیف  برداشت کی ہیں۔ اگر شہادت کی   قدر اور راہِ  حق کے مجاہد کی شہادت  سے   محبت اور شوق کا شیطانی لشکر کے  کارندوں کو علم ہوتا تو کبھی   کسی  مجاہدکو شہید  نہ کرتے۔ ہم  پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ دشمن کو اللہ تعالیٰ نے    ان  عظمتوں سے لاعلم  رکھا ہے۔ اس لی ہم  اپنی  آخری خواہش شہادت  تک  باآسانی  پہنچ  جاتے ہیں۔ ہم  بزدل  دشمن کو ایک  مرتبہ  پھر  یہ  باور کرانا  چاہتے  ہیں کہ تمہاری  پھانسیوں کا سلسلہ  ہمیں  بغیر کسی  انتظار کے  اپنے  ہدف  تک  پہنچنے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ  کچھ نہیں۔
اس  سے  تمہاری  حکومت  رب کے  قہر کی مستحق ہوگی  اور  ان شاء اللہ   تمہارےافراد ڈاکٹر  نجیب کی طرح ہمارے ہاتھوں  کابل  کی  شاہراہوں پر  پھانسی کے پھندے پر جھول  رہے ہوں گے۔  اس کے علاوہ    قیامت کے دن  اللہ کاسخت  اور دردناک عذاب  تمہارا منتظر ہے۔