شیخ القرآن مولوی نجم الدین سالک رحمہ اللہ کی حیات اور خدمات پر ایک طائرانہ نظر!

اسلام کے مقدس دین کی ابتداء کے ساتھ ہی حق اور باطل کے درمیان عظیم معرکے وجود پذیر ہوئے جو آج تک چلے آرہے ہیں۔ جن میں اس وقت تک لاکھوں بہادر سپوتوں سےغیرت اور بہادری کے علم سربلندرکھے ہیں۔ جنھوں نے اعلاء کلمۃ اللہ کے گلشن کو اپنے خون سے سینچا ہے اور شاداب […]

اسلام کے مقدس دین کی ابتداء کے ساتھ ہی حق اور باطل کے درمیان عظیم معرکے وجود پذیر ہوئے جو آج تک چلے آرہے ہیں۔ جن میں اس وقت تک لاکھوں بہادر سپوتوں سےغیرت اور بہادری کے علم سربلندرکھے ہیں۔ جنھوں نے اعلاء کلمۃ اللہ کے گلشن کو اپنے خون سے سینچا ہے اور شاداب رکھا ہے۔ اسلام کے حریم کا ہمیشہ مردانہ وار دفاع کیا ہے۔ اپنی جان اورمال کے نذرانے ضرور پیش کیے ہیں،مگر کفر اور مغرور دشمن کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کبھی نہیں کرنے دی۔
ان بہادروں میں سے ایک شیخ الحدیث مولوی نجم الدین سالک رحمہ اللہ بھی تھے جنھوں نے اپنے رب کے ساتھ کیے گئے وعدہ کو سچا کرکے دکھایا۔ آئیے! ایک لمحہ کے لیے اس مردِ جری اور نامور مجاہد کی زندگی،کارناموں اور ذاتی امتیازات پر گفتگو کریں اور ان کی یاد تازہ کرکے ان کےفراق کی پیاس بجھائیں۔
ولادت:
مولوی نجم الدین سالک رحمہ الله محترم میاں عظم الدین بابا صاحب کے بیٹےاور مرحوم شیخ گل شیر رحمہ الله کے پوتے تھے۔ خواجہ خیل قوم سے تعلق تھا۔سنہ (۱۹۶۵) کو صوبہ کابل کے ضلع سروبی کے تور غر علاقہ میں ایک دیندار اور مجاہد گھرانے میں آنکھ کھولی۔
سالک رحمہ الله کے والد محترم میاں عظم الدین صاحب دین سے گہرا تعلق اور شغف رکھتے تھے اور متقی،نیک سیرت اور تصوف کے چاروں طرق میں مجاز بیعت تھے، اسی لیے انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کو اسلامی علوم سے فیض یاب کرنے کے لیے قابلِ قدر توجہ کی۔
تعلیم وتعلم:
روسی جارحیت کے وقت اپنے گھرانے کے ساتھ صوبہ خیر پختونخوا ہجرت کی نیت سے منتقل ہوگئے۔اس وقت ہجرت اور جہاد کا دور دورہ تھا اور موصوف نوخیز جوان تھے ۔ اس لیے روسی استعمار کے خلاف پورے اخلاص اور مضبوط عزم کے ساتھ جہاد کیا۔ روس کی شکست کے فورا بعد مولوی نجم الدین سالک نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھاگیں کس لیں،انہیں علم اور جہاد سے بڑا شغف تھا۔ متوسطہ سے لے کر موقوف علیہ تک کے درجات دیار ہجرت میں خیبر پختونخوا میں ہی مختلف مدارس کے اندر بڑی کامیابی کے ساتھ پڑھ لیے۔ دورہ حدیث کے لیے اسلامی علوم کی عظیم درسگاہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں داخلہ لیا اور وہیں سے ممتاز سند کے ساتھ دستار فضیلت حاصل کی۔
دینی علوم کی تحصیل کے ساتھ ہی انہوں نے تصوف کے میدان میں خاصی سبقت کرلی اور چاروں سلاسل میں مجاز بیعت بن گئے۔ انہوں نے فراغت کے بعد ایک کامیاب مدرس کی حیثیت سے تدریس شروع کی۔خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں افغان مہاجرکیمپ میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔ طلبہ کو سبق پڑھانا شروع کیا اور سینکڑوں شاگردوں کو فیض یاب کیا۔
وہ اسلامی علوم کے ہرفن میں بے پناہ مہارت رکھتے تھے۔ اس لیے کچھ عرصہ بعد ہنگو کے ایک مشہور مدرسہ میں جب تدریس کے لیے ایک زبردست ،ماہرِ فن اور مسلم استاد کی ضرورت پڑی تو اہل علاقہ کی درخواست پر آپ نے وہاں تدریس شروع کی۔
جہادی سرگرمیاں:
جب سنہ (۱۹۹۶) میں فساد کے خاتمہ کے لیے طالبان کی اسلامی اور ملی تحریک کاقیام عمل میں لایا گیا تو شیخ صاحب ان صف اول کے مجاہدین میں سے تھے جو اس اسلامی اور قومی تحریک کے ہراول دستے میں رہے تھے۔ انہوں نے اپنے تمام شاگردوں اور متعلقین کو اس تحریک میں اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ وہ کابل کی عظیم اور تاریخی کاروائیوں میں شہید ملابورجان کے شانہ بشانہ رہے ۔ ۱۹۹۶ میں جب کابل طالبان کے ہاتھوں فتح ہوا تواس میں موصوف کا بھی بڑا کردار تھا۔ امارتِ اسلامیہ کے ایک فرمان پر انہیں اسی صوبہ کے ضلع سروبی کے عسکری سربراہ اور امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ذمہ دار بنادئیے گئے۔وہ چونکہ جید عالم دین اور بلند اخلاق کے مالک تھے اس لیے امارتِ اسلامیہ کی جانب سے امربالمعروف صوبہ کابل کے شعبہ عسکری ونگ کے سربراہ کے طور پر بھی ان کا تقرر کیا گیا۔
ان کی عادت یہ تھی کہ اپنی ذمہ داری پوری ایمانداری اور اخلاص سے نبھاتے تھے۔ سالک صاحب رحمہ الله امارتِ اسلامیہ کے دورِ اقتدار میں نامور اور بہادر تلامذہ بھی رکھتے تھے۔ جن میں ملا عبدالرزاق اور ملااخترمحمد عثمانی رحمہما اللہ بھی شامل تھے-ملاعبدالرزاق اس وقت وزیر داخلہ اور ملااخترمحمد عثمانی قندھار کی مرکزی چھاونی کے رئیس تھے۔
سنہ( ۱۹۹۸) میں جب شمالی صوبوں کے اندر دوستم کے ملیشیوں نے بغاوت کے ساتھ وحشت بھی شروع کردی اور امارتِ اسلامیہ نے اپنی عسکری قیادت اور طاقت مکمل وہاں بھیج دی، تب بھی امارتِ اسلامیہ کے حکم پر ایک اعلی عہدیدار اور سپریم کمانڈر کی حیثیت سے اپنے ساتھیوں سمیت غازیوں اور مجاہدین کے اس قافلہ حق میں شامل ہوگئے۔
صوبہ کاپیسا کے ضلع نجراب اور جبل سراج میں خط اول پر رہے۔ موصوف شہید کے ساتھ میرے چچا الحاج ملا عبدالرزاق نقشبندی بھی اس تشکیل میں شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم بھی اگرچہ جنگ کے صف اول میں ہوا کرتے تھے مگر ہمیں خوف وہراس کبھی محسوس نہیں ہوا؛کیونکہ وہ ہر وقت ہمیں حوصلہ دیتے رہتے۔ میرے چچا کا مزید کہنا ہے کہ ہم جو علاقہ بھی فتح کرتے وہ ہمیں عوام کی جان اور مال کی حفاظت کی بہت تاکید کیا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ دورانِ تلاشی اور کاروائی بھرپور احتیاط کرنا ہوگی۔ خود ان کی عادت یہ تھی کہ طالبان کے خون کے پیاسے دشمنوں کے اموال بھی اپنے استعمال میں نہیں لاتے بلکہ مستحقین تک پہنچاتے تھے-
مختصر یہ کہ انہوں نے امارتِ اسلامیہ کے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں اپنا جہادی فریضہ بڑی خوبی سے سرانجام دیا۔
صليبی يلغار کے خلاف جہاد:
جب(۲۰۰۱) میں امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر مل کر حملہ کیا تو موصوف امارتِ اسلامیہ کی مکمل پسپائی کے بعد اپنے گھر میں مقیم ہوگئے-کچھ عرصہ بعد جب امارتِ اسلامیہ کے مجاہدین نے اپنی صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا اور جہاد کا سلسلہ ایک دفعہ پھر شروع ہوگیا تو موصوف بھی نئی عزم اور ولولے کے ساتھ اس کاروان میں شامل ہوگئے-
مولوی نجم الدین سالک رحمہ اللہ جس طرح طالبان کی اسلامی اور ملی تحریک کے سابقین اولین میں سے تھے-اسی طرح جارحیت کے ابتدائی لمحات سےآپ نے اپنے محدود ساتھیوں کو منظم کرکے ضلع سروبی میں دشمن پر گوریلا حملے شروع کردیے۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد کھلم کھلا بہت سارے علاقوں تک ان کے اثرات پھیلنے لگے۔ ان کی کارروائیوں نے دشمن کی نیندیں اڑادیں اور علاقہ میں دشمن کے لیے ان کانام ہیبت اور رعب کی علامت بن گیا تھا۔
جیل کی کوٹھڑی تک:
شیخ سالک رحمہ اللہ کی سخت ریکی کی جارہی تھی، تاآنکہ جون ۲۰۱۲ کو صوبہ پکتیا کے ضلع اریوب میں مضبوط جاسوسی کاروائی کے نتیجہ میں اپنے دو مجاہدین ساتھیوں سمیت اس وقت گرفتار ہوگئے جب محاذ سے اپنے گھر کی طرف جارہے تھے۔ گرفتار ہونے کے بعد موصوف گردیز کے وحشی صفت این ڈی ایس کے اہلکاروں کے حوالہ کیے گئے۔ گرفتاری کے بعد بھی ان کے لیے لہجے میں کوئی بزدلی نہیں آئی۔ انہوں نے تفتیش کے دوران دوٹوک الفاظ میں کہا کہ میں طالب ہوں اور امریکا سے اپنے ملک کی آزادی کے لیے جہاد کرتا ہوں اور انہیں قتل کرتا ہوں!
اس کے بعد انہیں کابل منتقل کیا گیا۔ جہاں انہیں این ڈی ایس کے مرکزی اہلکاروں کے حوالہ کیا گیا۔ وہاں انہیں طرح طرح کی وحشتوں، مظالم اور شکنجوں سے گزرنا پڑا۔ انہوں نے یہ سب کچھ قبول کیا مگر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوئے-جس پر انہیں پل چرخی کے وحشی زندان میں منتقل کیا گیا-انہوں نے وہاں پر تدریس کاسلسلہ شروع کیا اور متعدد شاگردوں کو دین ِاسلام کے احکام سے واقف کرایا۔
رہائی:
امارتِ اسلامیہ کے رہنماوں اور عام مجاہدین کی کوششوں اور بے پناہ رقم خرچ کرنے کے بعد اگست دوہزار تیرہ میں وہ جیل سے رہا ہوئے۔
وفات :
موصوف چونکہ جیل جانے سے پہلے بھی شدید بیمارتھے۔ جیل میں علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے بیماری نے مزید شدت اختیار کرلی۔ اس کے ساتھ جیل میں وحشتوں اور شکنجوں نے صحت میں مزید ابتری پیدا کردی، جس سے ایک سال کی مدت میں ان کی صحت بالکل خراب ہوگئی- رہائی کے بعد کچھ عرصہ گھر میں گزارنے کے بعد سخت بیمار پڑگئے۔ امارت اسلامیہ کے کمیشن برائے صحت کی جانب سے علاج پر بھرپور خصوصی توجہ دی گئی۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ بالاخر جنوری ۲۰۱۴ کو ان کی بیماری جان لیوا جان لیوا ثابت ہوئی اور وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔
اناالله وانا الیه راجعون.
رحمہ اللہ وتغمدہ بغفرانہ