علامہ غلام حیدر؛ حیات و خدمات

قاری سعید میرا ارادہ بن رہا تھا کہ امارت اسلامیہ کے رہنما اور جید عالم شیخ الحدیث مولوی غلام حیدر رحمہ اللہ کی زندگی سے متعلق کچھ سامنے لایا جائے۔ اسی سلسلے میں مَیں اُن کے گھر کی تلاش کی غرض سے نکلا۔ مَیں نے سوچا ’جیسا کہ مولوی غلام حیدر صاحب ایک جید عالمِ […]

قاری سعید

میرا ارادہ بن رہا تھا کہ امارت اسلامیہ کے رہنما اور جید عالم شیخ الحدیث مولوی غلام حیدر رحمہ اللہ کی زندگی سے متعلق کچھ سامنے لایا جائے۔ اسی سلسلے میں مَیں اُن کے گھر کی تلاش کی غرض سے نکلا۔ مَیں نے سوچا ’جیسا کہ مولوی غلام حیدر صاحب ایک جید عالمِ دین اور امارت اسلامیہ کے اہم رہنماؤں میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ خدمتِ دین میں گزارا ہے۔ یقینا ان کی دنیا کی زندگی مختلف سہولیات سے لبریز ہوگی۔ ان کا ایک عالی شان گھر ہوگا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ اللہ کے دین خدمات کی بدولت جس قدر اخروی زندیگ پُرتعیش ہوتی ہے تو اسی کے برعکس دنیا کی زندگی مصائب سے بھرپور ہوتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا کو کچھ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کی ساری زندگی اسلام کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ مولوی غلام حیدر صاحب کی رہائش گاہ پر بہت مشکل سے پہنچ پایا۔ یہ ان کی وہ رہائش گاہ تھی، جہاں انہوں نے زندگی کا آخری وقت گزارا تھا۔ ایک جامع مسجد کے قریب کسی جھونپڑی جیسا گھر تھا، جو غربت کی عکاسی کرتا تھا۔ مرحوم شیخ صاحب کے بیٹے نے میرا بہترین استقبال کیا۔ پھر شیخ صاحب کے مہمان خانہ میں بٹھایا۔ شیخ  صاحب کے کمرے میں روحانیت کا ایک عجیب اثر محسوس ہوتا تھا۔ شیخ صاحب کی زندگی کے بارے میں ان کے بیٹے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ انہوں نے شیخ صاحب کی علمی، جہادی  اور تدریسی خدمات کے بارے میں تفصیلی معلومات دیں۔ انہوں نے بتایا کہ شیخ صاحب ایک متقی عالم دین تھے۔ وہ دنیا کی آسائشوں سے لاتعلق تھے۔ ہمیں ان کی طرف سے وراثت میں صرف کتابوں کی ایک الماری ملی ہے، جو آپ کے سامنے ہے۔

جب مَیں نے امارت اسلامیہ کی فوجی عدالتوں کے سربراہ مولوی غلام حیدر صاحب کی عظیم خدمات اور خلوص  کے ساتھ ان کی غریبانہ زندگی کا موازنہ کیا تو ذہن میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا وہ تاریخی جملہ جگمگانے لگا، جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے: ’’كونوا ينابيع العلم مصابيح الهدى أحلاس البيوت سرج الليل جدد القلوب خلقان الثياب . تعرفون في أهل السماء، وتخفون في أهل الأرض۔‘‘ واقعی مرحوم شیخ صاحب کی زندگی کھلی کتاب کے مانند تھی۔ وہ علم کا سرچشمہ اور ہدایت کے چراغ تھے۔ ان کا دنیا کے ساتھ لگاؤ تھا اور نہ ہی شہرت کی تمنا تھی۔

شیخ الحدیث مولوی غلام حیدر صاحب

مولوی غلام حیدر صاحب نے 1945 بمطابق 1364 میں قندھار کے ضلع شوراوک کے ’بڑیچ علی زئی‘ گاؤں میں مشہور عالم دین ملا فقیر محمد اخند کے ہاں آنکھ کھولی۔ ان کے والد محترم علاقے کے مشہور عالم دین اور متقی شخص تھے، جنہوں نے اپنے بیٹے کی تربیت اور تعلیم پر بھرپور توجہ دی۔ اس وقت افغانستان میں تاریخی خشک سالی کے باعث بہت سے لوگ نقل مکانی کر گئے تھے۔ مولوی غلام حیدر کے والد محترم مولوی فقیر محمد اخند بھی اپنے خاندان سمیت شوراوک سے نقل مکانی کر کے قندھار کے ضلع پنجوائی کے علاقے زنگاوات میں رہائش پذیر ہوئے۔ گاؤں کے لوگوں نے انہیں اپنی مسجد کا پیش امام مقرر کر دیا۔ اس دوران مولوی غلام حیدر صاحب نے اپنے والد گرامی سے حصول علم کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کے بعد قندھار کے مختلف علاقوں میں دیگر جید علمائے کرام کے زیرِسایہ حصول علم کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب مولوی غلام حیدر کے والد گرامی انتقال کر گئے تو انہوں نے حصول علم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے پاکستان کا رخ کیا۔ انہوں نے صوبہ بلوچستان کے مختلف مدارس میں معروف علمائے کرام سے دینی علوم مکمل کر کے سن 1395ھ میں کوئٹہ کے مشہور مدرسے ’دارالارشاد‘ چمن پھاٹک سے سند فراغت حاصل کی ۔

تدریس کا آغاز

مولوی غلام حیدر صاحب نے مدرسہ قاسم العلوم شابو کوئٹہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ بعدازاں انہوں نے مدرسہ مظہر العلوم شالدرہ اور جہاد کے دوران کوئٹہ میں حرکتِ اسلامی انقلاب کے مشہور مدرسے میں سلسلہ تدریس جاری رکھا۔ انہوں نے جہاد کے دوران کوئٹہ، پشین، گلستان اور دیگر علاقوں میں تدریس و امامت کا مقدس فریضہ انجام دیا۔ وہ اس کے بعد بلوچستان کے مشہور مدرسہ دارالعلوم ہاشمیہ میں  شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ مرحوم شیخ صاحب آخر دم تک تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے۔ حتی کہ امارت اسلامیہ کے دور میں دفتری امور کے فرائض کے دوران بھی سرکاری اوقاتِ کار سے پہلے بعد میں اپنے خصوصی طلباء کو دینی کتابیں پڑھاتے تھے۔ جب امریکا نے افغانستان پر یلغار کی تو انہوں نے ایک بار پھر ہجرت کی زندگی کے دوران تدریس شروع کر دی۔ وہ مرتے دم تک اس مقدس شعبے کے ساتھ وابستہ رہے۔ مرحوم شیخ صاحب اپنے وقت کے ایک جید عالمِ دین اور تجربہ کار مدرس تھے۔ امارت اسلامیہ کے بہت سے رہنما ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ اس لیے امارت اسلامیہ کے فوجی اور شہری حکام کی نظر میں انہیں ایک خاص مقام حاصل تھا۔

جہاد اور امارت اسلامیہ میں خدمت

شیخ صاحب کا شمار روس کے خلاف جہاد کے دوران اہم داعی علماء میں ہوتا تھا۔ انہوں نے مولوی محمد نبی محمدی کی تنظیم ’حرکت اسلامی‘ کے جہادی شعبے میں کام کیا۔ قندھار کے ضلع شوراوک میں ان کے مجاہدین جہادی کارروائیاں کرتے تھے۔ وہ خود بھی تدریس کے وقت سے فراغت کے بعد مسلح جہاد میں حصہ لیتے تھے۔ جہاد کی بدولت سوویت یونین کی شکست کے بعد جب افغانستان میں افراتفری اور لاقانونیت کے دور کا آغاز ہوا تو اس کے خلاف مجاہدین کی ’تحریکِ جہاد‘کے تحت جہاد کا اعلان ہوا۔ اس وقت شیخ صاحب کوئٹہ شہر کے علاقے ’موسی کالونی‘ میں تدریسی خدمات انجام دیتے تھے۔ ایک دن تحریکِ جہاد کے چند معروف سرکردہ رہنماؤں: ملا بورجان شہید، مولوی احسان اللہ احسان شہید اور مولوی وکیل احمد متوکل پر مشتمل وفد نے ان سے ملاقات کر کے انہیں تحریکِ جہاد میں شمولیت کی دعوت دی۔ شیخ صاحب نے وہ دعوت قبول کر لی۔ اس وقت قندھار کے تین اضلاع میوند، بولدک اور شین ڈنڈ پر مجاہدین نے اپنا کنٹرول قائم کر لیا تھا۔ جب کہ ابھی تک قندھار شہر فتح نہیں ہوا تھا۔ شیخ صاحب ان کے ہمراہ ہو گئے اور تحریکِ جہاد میں پہلے عسکری سربراہ ملا محمد اخوند کی قیادت میں جہادی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کے حکم پر فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ شیخ مولوی غلام حیدر صاحب کو ان عدالتوں کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔

امارت اسلامیہ نے فوجی عدالتیں اس لیے قائم کی تھیں کہ عسکری شعبے سے وابستہ افراد کو ظلم، جرائم اور سرکشی سے روکا جائے۔ اگر عسکری شعبے میں کسی فرد پر کوئی الزام عائد ہوتا تو اس کو فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا تھا۔ فوجی عدالتوں کا مرکز قندھار میں تھا۔ جب کہ کابل، ہرات، مزار شریف، قندوز، ننگرہار اور کچھ دیگر صوبوں میں اس کے مقامی دفاتر اور برانچیں قائم کی گئی تھیں۔ شیخ صاحب اصول پسند اور حساس آدمی تھے۔انہوں نے فوجی عدالتوں کے سربراہ کے طور پر عظیم خدمات انجام دیں۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو فوجی عدالتوں کے ذریعے غیرقانونی اقدامات سے روکا۔ وہ عوام الناس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ فوجی عدالتوں پر امارت اسلامیہ کے بانی مرحوم امیرالمؤمنین ملا محمد عمر مجاہد کی خصوصی توجہ تھی۔ حتی کہ شیخ صاحب کبھی کبھی کہتے تھے کہ ’یہ امیرالمؤمنین کی عدالت ہے۔‘ کیوں کہ وہ اس بات پر زیادہ زور دیتے تھے کہ ’مجاہدین ہتھیار اور طاقت کے بل بوتے پر شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک نہ کر سکیں۔‘

اگرچہ فی الوقت فوجی عدالتیں امارت اسلامیہ کی سول عدالتوں کے عمومی کمیشن کے ماتحت کام کر رہی ہیں، لیکن امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں یہ اتنا بااختیار اور مستقل طور طاقت ور ادارہ تھا کہ کسی بھی کور کمانڈر، گورنر، پولیس سربراہ، فوجی سربراہ اور جہادی فرنٹ لائن کے کسی بھی ملزم نام زد کیے گئے رہنماء کو متعلقہ مقدمے کی سماعت کے لیے بلایا جا سکتا تھا۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ ان سے بے باکانہ پوچھ گچھ ہوتی تھی۔ اس کی کئی مثالیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔

جس وقت امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، تب شیخ صاحب شمالی صوبوں میں فوجی عدالتوں کی نگرانی سے کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ قندھار تشریف لائے۔ جب امارت اسلامیہ نے شہروں سے پسپائی اختیار کی تو شیخ صاحب واپس ہجرت کر کے تدریس اور امامت کے فرائض ادا کرنے میں مشغول ہو گئے۔ البتہ انہوں نے تدریس و امامت کے ساتھ امریکا کے خلاف علَمِ جہاد بلند ہی رکھا۔ وہ اہم ذمہ دار کی حیثیت سے امارت اسلامیہ کے تمام متعلقہ شعبوں میں خدمات انجام دیتے تھے۔ امریکا کے خلاف جہاد کے ابتدائی سالوں میں امارت اسلامیہ کے سرکردہ رہنماؤں ملا عبید اللہ شہید، ملا برادر اخوند، ملا داد اللہ شہید، ملا اختر محمد عثمانی شہید ہمیشہ شیخ صاحب سے ملاقاتیں اور مشاورت کرتے تھے۔ بہت سے مسائل میں ان سے رہنمائی لیتے تھے۔ بعدازاں شیخ صاحب نے امارت اسلامیہ کی سول عدالتوں کے اعلی ادارے میں کام شروع کیا۔ چند دیگر شیوخ کے ساتھ مل کر عدالتوں کا نظام فعال کیا، جو اب تک امارت اسلامیہ کے تمام شعبوں میں ایک بنیادی کام گردانا جاتا ہے۔

وفات حسرتِ آیات

شیخ صاحب ہجرت کی زندگی کے دوران تدریس میں مصروف تھے کہ اچانک بیمار ہوگئے۔ وہ چند دن علالت کے بعد  26 ربیع الاول  1433ھ کو  67 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا لله و انا الیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ کے بعد انہیں کوئٹہ شہر میں ’شیخ ماندہ‘ کے قریب ’سیدان قبرستان‘ میں سپرد خاک کیا گیا۔

شیخ صاحب کے شاگرد ملا برأت شاہ آغا نے شیخ صاحب کی شخصیت کے بارے میں بتایا: ’شیخ صاحب نہایت متقی،جید عالم اور مشفق انسان تھے۔ وہ ہر انسان، بالخصوص مجاہدین پر بہت مہربان تھے۔ دنیا کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ ایک غریب عالم دین تھے۔ ان کی اولاد کو ورثہ میں کچھ نہیں ملا۔ اُن کی عبادت میں قابلِ رشک عاجزی تھی۔ وہ جذبۂ جہاد سے سرشار تھے۔ انہیں عہدوں کا کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے انجام دیتے تھے۔ اللہ تعالی ان کی خدمات قبول اور درجات بلند فرمائے۔ آمین