غیرقانونی مسلح جنگجوؤں کے مظالم

  اگر ایک جانب افغان  قوم  کو غیر  ملکی جارحیت پسندوں،  ان کے کٹھ پتلی  مسلح جنگجوؤں کی  جانب سے  قتل عام، تشدد، گرفتاریوں اور  لوٹ مار کا خطرہ ہے  تو  دوسری جانب  اشرف غنی گروہ کے غیر قانونی  مسلح  عناصر کی سربریت بھی  ان کے لیے دردِسر  بنتی جا رہی ہے۔ ’غیرقانونی مسلح  عناصر‘ […]

 

اگر ایک جانب افغان  قوم  کو غیر  ملکی جارحیت پسندوں،  ان کے کٹھ پتلی  مسلح جنگجوؤں کی  جانب سے  قتل عام، تشدد، گرفتاریوں اور  لوٹ مار کا خطرہ ہے  تو  دوسری جانب  اشرف غنی گروہ کے غیر قانونی  مسلح  عناصر کی سربریت بھی  ان کے لیے دردِسر  بنتی جا رہی ہے۔

’غیرقانونی مسلح  عناصر‘ کرائے کے  قاتلوں کا وہ  گروہ ہے، جو مستقل  طور پر   امریکا  اور  کابل   کی کٹھ پتلیوں کے اشاروں پر  چلتا ہے۔ انہی ناجائز طاقتوں  کی  طرف   سے ان عناصر کو مکمل  طور پر تعاون دیا جاتا ہے۔اُنہیں آتشیں اسلحے اور بھاری رقوم کے علاوہ  اتنی  آزادی دی  گئی  ہے کہ جہاں   ان کا دل  چاہے،  ظلم و ستم  کا بازار  گرم  کر  دیتے ہیں اور کسی قسم کا کوئی قانون ان کی گرفت کرنے کو آگے نہیں بڑھتا۔

مظلوم عوام نے   وقتاً  فوقتاً جارحیت پسندوں اور  کابل کی کٹھ پتلیوں کے  بے مہار  مسلح عناصر کے مظالم   پر  پُرزور احتجاج کیا   ہے۔ انہوں نے انصاف  کا مطالبہ کیاہے اورظالموں  پر مقدمہ چلا کر انہیں کیفرکردار تک پہچانے کا بھی مطالبہ کیا ہے، لیکن  اس  قسم کے احتجاج پر  نام   نہاد  انسانی  حقوق  کے ٹھیکے داروں   کے  کانوں پر جوں  تک  نہ یں رینگتی، بلکہ  آئے دن   امریکا کے زیرسرپرست عناصر کی جانب سے مظلوم عوام  پر  تشدد اور حملوں  میں  تیزی  آئی ہے۔ خاص طور پر حالیہ  دنوں میں      امریکی  ایما  پر وجود  میں آنے والے حکومت  میں غیر  قانونی  مسلح جنگجوؤں  کے حوالے سے عوامی شکایات میں  اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ا ن کےخلاف  بڑے  پیمانے پر مظاہرے  بھی ہوئے ہیں، جن میں اس   بے  وردی  مسلح عناصر کی  تحلیل کا مطالبہ کیا ہے، لیکن  خود کو عوام کا نمائندہ کہنے والے اشرف غنی کی طرف سے ابھی  تک   عوام کے مطالبے  پر  کوئی مثبت  جواب  سامنے نہیں آیا۔

صوبہ تخار کے عوام نے مختلف علاقوں  میں ان  غیرقانونی  مسلح عناصر کی  ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ان کاکہنا  تھا کہ  یہ  مسلح گروہ   مختلف  بہانوں  سے  عوام کو   اذیتیں  دیتے ہیں۔ ان پر تشدد کرتے ہیں۔ رقم لوٹ لیتے ہیں۔بلاوجہ خفیہ جیلوں میں قید کرتے ہیں۔ عوام  کو امریکا کے بعد سب سے زیادہ جانی اور مالی خطرہ ان  ناعاقبت اندیش غیرقانونی  مسلح عناصر سے درپیش ہے۔ اور حقیقت میں لوگ ان سے  بہت  تنگ اور بے زار ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کابل میں  بھی  لوگ  ان  غیرقانونی  مسلح گروہ سے  بے زار  ہیں۔ کابل   شہر کے  حلقہ نمبر 10، 12 اور16 میں دوسرے علاقوں کی  نسبت  لوگوں کو  بہت زیادہ  تنگ کیا جاتا ہے۔ رقم اور   پرانی دشمنی کی  بنا پر لوگوں کو اغوا کیا جاتا ہے۔  انہیں شدید تشدد  کے عمل سے گزار کر بھاری تاوان کے بدلے  رہا کیا  جاتا ہے۔ کئی  مرتبہ   ایسا بھی ہوا ہے  کہ  تاوان نہ  دینے  والے  شخص کو قتل بھی کر دیا گیا۔

اس  غیرقانونی  مسلح  گروہ   کے پیچھے  وہ  کون سی  قوت ہے،  جس نے ان  دہشت گرد عناصر کو اس  قدر آزادی دے رکھی ہے کہ  وہ دن رات لوگوں  کو اذیتیں دیتے رہیں  اور  ان کے جان  و مال  کے لیے عظیم خطرہ  بن جائیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر اشرف غنی بزعم خویش ایک ’قانونی حکومت‘ کے سربراہ ہیں تو عوام کواِن دہشت گرد عناصر سے خلاصی دلانے کے لیے اس ’قانون کے ہاتھ چھوٹے کیوں پڑ جاتے ہیں؟‘

مظلوم عوام  کو چاہیے  ان  خطرناک مسلح عناصر  اور  ان کی پشت پر کھڑے سہولت کاروں کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج  کریں۔  اگر پھر بھی ان کے  مطالبات  تسلیم   نہیں کیے جاتے تو پہلی صورت میں خود میدان عمل   نکل کر ان ظالموں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کریں، تاکہ اُن کے شر سے اپنی  جان، مال اور  ناموس کو محفوظ کیا جائے۔ اور یہ عوام کا فطری حق ہے، جس کے حصول تک جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ  امارت اسلامی کے مجاہدین   کا ان  مسلح دہشت گرد عناصر کی سرکوبی    کے لیے امارت اسلامی کے مجاہدین کا پہلے سے بڑھ کر ساتھ دیں، تاکہ جتنا جلد ہو سکے، اِن جنگجوؤں سمیت ان کے سہولت کاروں (امریکا، اشرف غنی گروہ) کا بھی خاتمہ کیا جا سکے، کیوں کہ مسئلے کی اصل جڑ وہی ہیں!