لاچاروں سے تعاون ایک اخلاقی ذمہ داری

ہفتہ وار تبصرہ ہمارے ملک کے عام شہریوں کو چالیس سالہ جنگوں اور بدامنی نےستایا ہے، حتی کہ زندگی کی بنیادی ضروریات کو  بہت سختی سے تلاش کرتے ہیں ،اب تازہ ایک نئے عالمی بحران (کورونا) نے بھی انہیں کافی معاشی مسائل سے روبرو کیا ہے۔ حالیہ 18 برسوں میں نااہل حکمرانوں کی جانب سے […]

ہفتہ وار تبصرہ

ہمارے ملک کے عام شہریوں کو چالیس سالہ جنگوں اور بدامنی نےستایا ہے، حتی کہ زندگی کی بنیادی ضروریات کو  بہت سختی سے تلاش کرتے ہیں ،اب تازہ ایک نئے عالمی بحران (کورونا) نے بھی انہیں کافی معاشی مسائل سے روبرو کیا ہے۔

حالیہ 18 برسوں میں نااہل حکمرانوں کی جانب سے غصب، ذخیرہ اندوزی، سود  اور دیگر معاشی بدعنوانیوں کے نتیجے میں افغانستان کے شہروں کے باشندے دو طبقات میں تقسیم ہوئے ہیں۔ان میں سے ایک چھوٹی  سی اقلیت جن کے پاس اقتدار اور معاشی ذرائع ہیں،ان کے لاکھوں ڈالر کے کھاتے ہیں اور مزید ناجائز سرمایہ کاری اور حرام خوری کے ذریعے اپنے کھاتوں کو بڑھا رہا ہے اور بیرون ممالک کے بینک اکاؤنٹس میں جمع کروا رہاہے ہ۔ مگر اس کے برعکس شہری ہموطنوں کی مطلق اکثریب غریب اور لاچار ہیں،  جو روزانہ کمائی اور مزدوری سے زندگی کے پہیے کو چلارہا ہے۔

کورونا بیماری کی وجہ سے شہر بند ہوچکے ہیں،روزگار کے مقامات، ٹرانسپورٹ اور دیگر معاشی سرگرمیاں معطل ہیں  اور ساتھ ہی شہروں میں مقیم اکثریت شہریوں کےروزمرہ منافع اور زرق تلاش کرنے کے ذرائع بھی بند ہوچکے ہیں۔  اس حالت نے ابتدائی ضروریات زندگی کے اشیاء کے بحران کےلیے راہ ہموار کردی ہے اور لاچار شہریوں کی اکثریت متعدد مسائل سے دوچار ہیں۔

دوسری جانب شہر سے باہر دیہی علاقوں کے افراد ہیں، جو اپنی کھیتی باڑی وغیرہ سے زندگی گزار رہےہیں، کورونا کا بحران اس حال میں آیا ہے کہ گندم اور دیگر حبوبات کی فصلیں اب تک نہیں پکی ہیں، اسی لیے اس وقت عوام حبوبات، میوہ جات اور دیگر پیداوار کی نہ پکنے کی وجہ سے اشیاءخوردونوش کی قلت سے روبرو ہوتے ہیں۔ اس حالت نے اشیاءخوردونوش کی قلت کے ایک بڑے بحران کے لیے راہ ہموار کردی ہے، اگر اس کا الزالہ نہ ہوجائے، تو اہل وطن کی بڑی تعداد اس سے متاثر ہوگی۔

للہ الحمد ہم ایک اسلامی ملت ہیں۔ اسلام کا مبارک دین ہمیں لاچار افراد کی احوال پرسی  کی رہنمائی کررہا ہے، اگر مسلمان بھائی کا کھانا نہ ہو، اپنی ہی روٹی کو آدھی کردینی چاہیے اور زندگی کے مسائل کے حل میں اپنی اخلاص اور امداد  کا دریغ نہ کریں۔

اگر ہماری مؤمن ملت اس آزمائشی حالات میں اسلام کے سنہری طریقوں پر عمل کریں۔ پڑوسی، لاچار، فقراء، بیمار اور دیگر عام مسلمانوں کے حقوق ادا کریں اور ہر مسلمان دوسرے سےاحسان اور صلہ رحمی کا فریضہ عملی کریں۔  تو بےشک ہماری مؤمن ملت اس آزمائش سے کامیاب نکل آئیگی۔ کیونکہ اسلامی ہدایات کی تعمیل سے اللہ تعالی کی برکات نازل ہوتی ہیں،  اللہ تعالی مؤمنوں کی نصرت کرتا ہے اور آزمائش آسان ہوجاتی ہے۔

امارت اسلامیہ افغانستان جو اپنی مسلمان ملت کی خدمت اور امداد اپنا  ایمانی اور اخلاقی فریضہ سمجھتی ہے، اہل ثروت افراد کو بھی بتلاتی ہے کہ لاچار ہموطنوں کیساتھ تعاون کرو۔ ہر ثروت مند شخص  کو چاہیے کہ اپنی مسجد، گاؤں اور یا شہر و محلہ میں  امدادی اشیاء اور محتاج افراد سے تعاون کرنے کا اقدام کریں، تاکہ کوئی مسلمان بھائی اشیاءخوردونوش کی کمی کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا نہ ہوجائے۔ اہل وطن کو اس ہنگامی صورتحال میں جھوٹے اور بدعنوان حکمرانوں کے پروپیگنڈوں سے دھوکہ میں   پڑنے چاہیے اور نہ ہی ان کے ساڑھے چار کلو گندم کی امید میں رہے۔ بدعنوان حکمران جو ملت کی رگوں کے خون کو چوستاہے،ان کا وہ احساس اور عاطفہ نہیں ہے، جس سے نادار افغان کے درد کا ادراک کریں۔

یہ کہ ماہ رمضان آنے والا ہے،عبادات اور صدقات کا یہ مہینہ ہمیں بھائی چارے، رحم دلی اور ہمدردی کا پیغام دے رہا ہے، تو اسی لیے اپنے پڑوسی لاچار افراد کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔