معاہدے کے بعد  دو طرفہ ذمہ داریاں

ہفتہ وار تبصرہ امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندوں اورریاستہائے متحدہ کے اعلی حکام کے درمیان 10 حوت 1398 ھ ش بمطابق 29 فروری 2020ء کو مملکت قطر کے صدر مقام دوحہ شہر میں جارحیت کے خاتمے اور افغانستان میں قیام امن کے معاہدے پر دستخط ہوا۔ تقریبا ڈیڑھ سال مذاکراتی عمل کے دوران یہ معاہدہ […]

ہفتہ وار تبصرہ

امارت اسلامیہ کے سیاسی نمائندوں اورریاستہائے متحدہ کے اعلی حکام کے درمیان 10 حوت 1398 ھ ش بمطابق 29 فروری 2020ء کو مملکت قطر کے صدر مقام دوحہ شہر میں جارحیت کے خاتمے اور افغانستان میں قیام امن کے معاہدے پر دستخط ہوا۔

تقریبا ڈیڑھ سال مذاکراتی عمل کے دوران یہ معاہدہ تدوین ہوا،اسی لیے افغان مسئلہ کے حل میں اسکا بنیادی کردار ہے،جس کی رو سے تنازع کے حل کی خاطر ایک واضح روڈ میپ کی نشاندہی ہوئی۔ معاہدہ کے مطابق دستخط کی تاریخ کے بعد دس دنوں تک امارت اسلامیہ کے 5000 قیدیوں کو رہا  کیا جائے، اسی طرح مقابل فریق  کے وہ 1000 قیدی بھی رہا کیے جائینگے،جو امارت اسلامیہ کے قید میں ہے۔ قیدیوں کی رہائی کے بعد بین الافغان مذاکرات کا   آغاز ہوگا اور افغان فریق مستقبل کے نظام اور جارحیت کے مرحلے کے بعد افغانستان کے متعلق منصوبہ بندی کریگا۔

قطر معاہدہ  کے نہ صرف افغانستان کی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں اور طبقات نے استقبال کیا، بلکہ  عالمی اور خطے کی سطح پر بھی اس کا وسیع خیر مقدم کیا گیا۔تقریبا 30 ممالک کے اعلی حکام اور اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی تنظیموں کے  نمائندوں نے معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی اور اپنے اظہارات کے دوران اس معاہدے  کی بھرپور حمایت کی۔

اگر ایک معاہدہ اچھے طریقے سے لکھا ہو اور اس کی حمایت اور مقبولیت بھی زیادہ ہو،مگر مقصد اور ہدف اس وقت حاصل ہوسکتا ہے،جب اسے عملی جامہ پہنایا جائے اور معاہدے میں ملوث فریق عملی اقدام کا آغاز کریں۔

یہ تاریخی معاہدہ حقیقی طور پر اپنا فیصلہ کن کردار اداء ، جارحیت کے خاتمہ اور افغانستان میں امن و امان قائم کرنے میں مفید واقع ہوجائے،امارت اسلامیہ اور ریاستہائے متحدہ کی حکومت دونوں پر لازم ہے کہ معاہدے کو عملی کرنے میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے نبھائے۔

مستقبل کے بارے میں  معاہدے میں مکمل وضاحت موجود ہے اور یہاں تک اس کے تمام اہم اقدامات کے لیےٹائم فریم طے کیا جاچکاہے،ٹائم فریم کا التزام اس لیے ضروری ہے کہ اس کی رعایت کرتے ہوئے کسی فریق کو بھی تاخیر اور تعلل کی ذمہ داری متوجہ نہیں کی جاتی ،جیسا کہ معاہدے کی کارکردگی کا عمل  مانا گیا ہے، تو تدریجی طور پراس کے عملی پہلو کو سامنے لے آئیگا۔

اب فریقین کی ذمہ داری ہے کہ مسئلے کے حل کی جانب کامیاب اقدامات کیے جائیں اور اپنی تمام توجہ کو معاہدے کو نافذ کرنے پر مرکوز کریں۔  یہ کہ افغان ملت اور عالمی برادری اس معاہدے پر دستخط کو ایک اہم پیشرفت سمجھتا ہے، یہ پیشرفت اس لیے مشروط ہے ،کہ اسے عملی طور پر انجام دیا جائے، تاکہ امریکی افواج محفوظ طور پر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور ساتھ ہی افغان ملت بھی طویل لڑائی کے بعد سکون کا  سانس لے۔

اسی طرح فریقین کسی کو اجازت نہ دیں،کہ اس تاریخی معاہدے کو  نقصان دہ اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔ پرامن حل کے لیے ہونے والے معاہدے کی ناکامی نہ افغانستان اور امریکا کے مفاد میں ہے، بلکہ  صرف اقتدار کے ان لالچوں کے مفاد میں ہے، جو جنگ میں اپنے ذاتی مفادات کو ڈھونڈ رہا ہے۔