کابل انتظامیہ جنگ جاری رکھنے کےبہانے کی جستجو میں

ہفتہ وار تبصرہ گذشتہ ہفتہ کابل اور ننگرہار میں جو دلخراش جرائم رونما ہوئے، تو عالمی برادری اور اہل وطن نے مشاہدہ کرلیا کہ  جرائم کس نے انجام دیے ؟ذمہ داری کس نے قبول کرلی اور اس کے ردعمل میں کابل انتظامیہ نے کس طرح حقیقی مجرموں کوبرائت دی اور  بناء کوئی وجہ صرف امن […]

ہفتہ وار تبصرہ

گذشتہ ہفتہ کابل اور ننگرہار میں جو دلخراش جرائم رونما ہوئے، تو عالمی برادری اور اہل وطن نے مشاہدہ کرلیا کہ  جرائم کس نے انجام دیے ؟ذمہ داری کس نے قبول کرلی اور اس کے ردعمل میں کابل انتظامیہ نے کس طرح حقیقی مجرموں کوبرائت دی اور  بناء کوئی وجہ صرف امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی خاطر امارت اسلامیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔

افغان ملت اور عالمی برادری اس صورت حال کے گواہ ہیں۔  وہ مشاہدہ کررہا ہے کہ کابل انتظامیہ کتنی بےشرمی سے جنگ جاری رکھنے کے لیے بہانے ڈھونڈ  رہے ہیں،تاکہ بلاجواز  غیرمعقول وجوہات کی بناء پر صلح کے شروع ہونیوالے عمل کو رکاوٹ اور تاخیر سے روبرور کرنے کی کوشش کریں۔

افغان عوام کو یہ یاد رکھنا چاہیے، تاکہ مستقبل میں مجرم اور نامجرم معلوم ہو۔ ملت اور تاریخ کو یاد رکھنا چاہیے کہ گذشتہ ہفتہ  کابل اور ننگرہار میں جرائم اس داعش کی جانب سے انجام ہوئے،جس کا تعلق کابل انتظامیہ کے خفیہ ادارےکیساتھ ہے، مگر اس کے برعکس شواہد وغیرہ کے بغیر الزام امارت اسلامیہ پر لگاکر صدارتی محل کے حکام نے رسمی طور پر جنگ بھڑکانے کا اعلان کیا۔

صدارتی محل کے حکام امن عمل کےنفاذ  میں مسلسل تاخیر اور تعلل کررہاہے۔ قیدیوں کی رہائی کے عمل کو آگے بڑھانے سے روک رہا ہے اور اس کی راہ میں لگاتار رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں۔ان کے پاس صلح کے حوالے سے واضح منصوبہ اور نہ ہی وفد  ہے، کبھی سرخ لکیر کے اعلان سے امن کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں اور کبھی دیگر مختلف بہانے تراشتے ہیں۔ مگر جب انہیں جنگ جاری رکھنے کا بہانہ مل جائے، پھر ایک دن میں فوجی منصوبہ بندی کے تمام مراحل کو طے اور ایک غیرمعقول بہانے کی بنیاد پر جنگ کا اعلان کرتا ہے۔

جنگ کے اعلان میں جلدباز اور امن کےقیام میں ہچکٹاہٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ افغان ملت کے قتل عام، بمباریوں، تشددہراساں اور قومی دولت کےلوٹنے کی عادی غلام اپنی بقاء کو جنگ ہی میں دیکھ رہی ہے۔ وہ اسی صورت حال کو بدستور جاری رکھنا چاہتا ہے،تاکہ اپنے بیرونی آقاؤں سے رقم، اسلحہ اور دیگر فوجی سازوسامان حاصل کریں اور اس مظلوم پر انہیں آزمائیں۔ اپنی ملت کے قتل عام سے خود کو جنرل اور مارشل بنالے۔ اپنے سرمایہ کو بڑھا دے اور غلامی کی مزدوری سے عیاشیاں کریں۔

اگر انہوں نے یہ سوچا ہے کہ جنگ ان کی بقاء اور فتح کی ضمانت دیگی، تو انہیں سمجھنا چاہیے، اس ملک میں استعمار کے کٹھ پتلیوں نے کبھی بقاء کا موقع نہیں پایا ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ مسلمان ملت کی امن پسند دعوت کو قبول کریں اور جنگ پر اصرار کرنے سے گریز کریں۔

امارت اسلامیہ ،جس نےہمیشہ پرامن حل کی حمایت کی ہے اور اس راہ میں امریکی غاصبوں کیساتھ مذاکرات کرنے سے جوابدہ اقدامات اٹھائے ہیں۔کابل انتظامیہ کےلیے بھی اس کا یہی پیغام ہے کہ اعلان جنگ کے بجائےامن کےمنتخب شدہ پالیسی  پر عملدرآمد کریں۔ اگر کابل انتطامیہ جنگ پر اصرار کررہی ہے، تو امارت اسلامیہ کو فوجی شعبے میں بھی مکمل آمادگی ہے اور اللہ تعالی کی نصرت سے دشمن کو ہر میدان میں عبرتناک سبق سکھائے گی۔ ان شاءاللہ