کابل کی کٹھ پتلیاں پریشان ہیں

آج کی بات: جان کیری کے ہاتھوں وجود میں آنے والے کابل ادارے کے ‘پچاس فیصد’ حکمران عبداللہ عبداللہ نے ایک اجلاس کے دوران اپنے فریق اشرف غنی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی انہیں ملاقات کا وقت نہیں دیتے اور  نہ ہی میرے ساتھ مشورہ کرتے ہیں۔ […]

آج کی بات:

جان کیری کے ہاتھوں وجود میں آنے والے کابل ادارے کے ‘پچاس فیصد’ حکمران عبداللہ عبداللہ نے ایک اجلاس کے دوران اپنے فریق اشرف غنی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اشرف غنی انہیں ملاقات کا وقت نہیں دیتے اور  نہ ہی میرے ساتھ مشورہ کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ میرے دستخط سے ہی کرسیِ صدارت پر براجمان ہوئے۔ اسی طرح بلخ کے ایک کٹھ پتلی جنگی کمانڈر عطانور نے بھی اشرف غنی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اشرف غنی صدر ہونے کے باوجود انہیں اپنے منصب سے نہیں ہٹا سکتا۔ اشرف غنی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ مجھے برطرف کریں، کیوں کہ اشرف غنی ہماری رائے سے صدر بنے ہیں وہ قانونی صدر نہیں ہیں۔

بدنام زمانہ  اور گلم جم ملیشیا کے سربراہ جنگی مجرم دوستم کے اشرف غنی کے خلاف بیانات تو ہمیشہ شہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ کٹھ پتلی  حکومت کے سکیورٹی اداروں پولیس، اربکی اور اعلی حکام  کے درمیان باہمی اختلافات، بداعتمادی  اور جھڑپیں اب روز کا معمول بن گئی ہیں۔ باخبر تجزیہ کاروں کے مطابق مذکورہ صورت حال کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں:

  1. پہلی یہ کہ جارحیت پسندوں کا وطیرہ یہ ہے کہ وہ اپنی کٹھ پتلیوں کو ہمیشہ ایسی محتاجی کی حالت میں رکھتے ہیں، جس میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھے رہیں۔ ان کے درمیان باہمی اعتماد کی فضا نہ ہو۔ وہ ایک دوسرے کے دشمن بنے رہیں۔ اس لیے وہ مدد کے لیے ہمیشہ اپنے جارحیت پسند آقاؤں کی جانب دیکھتے رہتے ہیں۔
  2. دوسری اور اہم وجہ یہ ہے کہ مجاہدین کے فاتحانہ حملوں نے ان کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کو اپنی شکست کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ عوامی حمایت سے تو ہم مکمل طور پر محروم ہیں اور جارحیت پسند صرف محدود مالی مدد اور ذرا سی مقدار میں اسلحہ دے دیتے ہیں، جس سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ کٹھ پتلیوں کو ان کی خواہش کے مطابق اسلحہ اور رقم نہیں ملتی اور نہ جارحیت پسند میدان جنگ میں اب خود کودتے ہیں۔ وہ صرف اپنے کٹھ پتلیوں کو مجاہدین کے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں اور خود چوہوں کی طرح بلوں میں گھسے رہتے ہیں۔

دوسری جانب مجاہدین اللہ تعالی کی مدد کے ساتھ نہایت بلند حوصلے اور کامیاب عسکری   منصوبوں کے تحت آئے روز دشمن پر زمین تنگ کر رہے ہیں، جس کی واضح مثال ہلمند میں حالیہ فتوحات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کابل  میں بیٹھے ریموٹ کنٹرول حکمران سخت مایوسی کا شکار ہیں اور اب ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ ان کے باہمی اختلافات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ کمیونسٹ بھی اپنے آخری دور میں اسی قسم کے اختلافات کا شکار ہوئے تھے اور بالآخر کابل کمیونزم کے نام سے تشکیل دیا جانے والا روسی ادارہ مجاہدین کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا اور ایک ہی حملے میں زمین بوس ہو گیا تھا۔

وہ دن دور نہیں جب کابل کا موجودہ امریکی ساختہ ادارہ بھی باہمی اختلافات کا شکار ہوکر  نیست و نابود ہو جائے  گا۔ اور یہ کام اللہ تعالی کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے!