ہلمند میں پاکستانی جنرلز کی موجودگی کا سفید جھوٹ

آج کی بات: آزاد میڈیا کے نام پر گزشتہ دن کچھ ریڈیو چینلز اور نیوز ویب سائٹس نے کابل کے مصنوعی جنرلز کی زبانی یہ رپورٹ  نشر کی کہ ہلمند میں مجاہدین اس لیے مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں، کیوں کہ اُن کے ساتھ پاکستان کے  فوجی جنرل بھی ہیں، جو جنگ میں اُن […]

آج کی بات:

آزاد میڈیا کے نام پر گزشتہ دن کچھ ریڈیو چینلز اور نیوز ویب سائٹس نے کابل کے مصنوعی جنرلز کی زبانی یہ رپورٹ  نشر کی کہ ہلمند میں مجاہدین اس لیے مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں، کیوں کہ اُن کے ساتھ پاکستان کے  فوجی جنرل بھی ہیں، جو جنگ میں اُن کا ساتھ دیتے ہیں۔ کابل کے ایک کٹھ پتلی جنرل انگار  کا کہنا تھا کہ ‘‘میرے  ساتھ بہت سے ثبوت موجود ہیں کہ مجاہدین کے ساتھ جنگ میں پاکستانی   موجود ہیں۔ اور انہیں یہ بات علاقہ مکینوں نے بتائی ہے۔ باقی مجھے ان کی تعداد اور جگہ کا علم نہیں کہ وہ ہلمند کے کس علاقے میں ہیں۔’’

کابل کے کٹھ پتلی حکام  کو جب  امریکا کی کاسہ لیسی، وطن فروشی  اور ان کے   پاؤں پڑنے سے فرق نہیں پڑتا تو میڈیا میں اس قسم کے بزدلانہ اور جھوٹے پروپیگنڈے سے ان کو کیا شرمندگی محسوس ہوگی۔ اسی طرح صحافتی اصولوں کے بالکل منافی یہودیوں اور ان جارحیت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال  میڈیا کو  اس قسم کی یک طرفہ رپورٹنگ پر بھی کوئی شرمندگی نہیں۔

جب کہ اصل حقیقت سے دوست اور دشمن سب اچھی طرح واقف ہیں کہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے گزشتہ پندرہ سال سے امریکا اور اس کے حواری اتحادیوں کے دانت کھٹے کر رکھے ہیں۔ فدائی حملوں،گھات لگاکر کیے جانے والے حملے  اور مجاہدین کی مائن کارروائیوں  نے دشمن کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ وہ اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ اس لیے ان کے پاس مجاہدین کو بدنام کرنے کا یہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کابل ادارے کے غلام حکام اس قسم کے جھوٹے  الزامات اور پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، بلکہ کئی مرتبہ وہ ایسی نامعقول جھوٹی رپورٹیں دیتے رہے ہیں، جن کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا۔

کبھی یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مجاہدین بچوں اور خواتین کو فدائی تربیت دیتے ہیں۔ کبھی مجاہدین پر اسکولوں کو نذر آتش کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔کبھی سڑکوں اور پلوں کی تباہی کا الزام مجاہدین پر لگاتے ہیں۔ کبھی یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مجاہدین نے عام شہریوں کے گھروں کو آگ لگا دی ہے۔ کبھی عام شہریوں کے قتل عام کا الزام لگا کر کہتےہیں کہ مجاہدین کے ساتھ پاکستانی جنرل بھی  ہمارے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس جیسے سیکڑوں جھوٹے پروپیگنڈے اب بزدل دشمن کے روز کا معمول بن گئے ہیں۔

حالانکہ یہ تمام خامیاں کابل کی غلام انتظامیہ میں موجود ہیں۔ ان کے سکیورٹی اہل کاروں کے بارے میں ان کے مغربی آقاؤں نے رپورٹ دی ہے کہ وہ بچوں کو جبری طور پر بھرتی کر رہے ہیں۔ جب کہ مجاہدین کی صفوں میں بچوں کو بالکل اجازت نہیں کہ وہ جنگ میں شریک  ہوں۔ اسکولوں اور پلوں کی تباہی کی رپورٹ کل ہی دی  گئی تھی کہ لغمان اور لوگر میں کٹھ پتلی اہل کاروں نے مجاہدین کے خلاف ایک سازش کے طور پر  ایک اسکول کو آگ لگا کر میڈیا پر رپورٹ چلوا دی کہ مذکورہ اسکول کو  مجاہدین نے جلا یا تھا۔ اور علاقہ مکین اس واقعے کے عینی شاہد ہیں۔ جب کہ دوسری جانب عام شہریوں کے گھروں کو نذر آتش کرنے کارنامہ تو سب کے علم میں ہے کہ یہ کام گلم جم ملیشیا کے خونخوار کمانڈر دوستم  کا ہے، جس نے تعصب کے مارے شمالی صوبوں میں سیکڑوں شہریوں کے گھروں کو آگ لگا دی تھی۔

اب حالیہ الزام یہ ہے کہ ہلمند کی لڑائی میں پاکستانی جنرلز بھی مجاہدین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کٹھ پتلی انتظامیہ کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ 3 لاکھ  جنگجو اہل کار دنیا کی 44 بڑی طاقتوں کے ہزاروں فوجی صرف گنتی کے چند پاکستانی جنرلز کو قابو کرنے میں کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟  اگر واقعی پاکستانی یہاں لڑ رہے ہیں تو عوام کے سامنے اس کی  ایک مثال رکھ لی جائے کہ وہ کس علاقے میں ہیں؟ کٹھ پتلی ادارے کے تمام  حکام باربار غیرملکی جارحیت پسندوں سے امداد کی اپیل کرتے ہیں کہ مجاہدین پر جلدازجلد بمباری کی جائے۔ ہمیں اسلحہ دیا جائے۔ ہمارے ساتھ زمینی آپریشن میں مجاہدین کے خلاف  ساتھ دیا جائے۔ ان تمام باتوں پر انہیں ذرا برابر شرم نہیں آتی،  لیکن مجاہدین کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہوئے کہتے  ہیں کہ ا ن کے ساتھ پاکستانی  بھی جنگ میں شریک ہیں۔ کیا یہ ایک معقول منطق ہے؟

کٹھ پتلی انتظامیہ ان پروپیگنڈوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے، تاکہ لوگوں کا ذہن اُن کی شرم ناک شکست  اور کفار کی جارحیت   کی طرف متوجہ نہ ہو۔  اور یہ بھی کہ عوام میں اُن کے لیے ہمدردی پیدا کی جا سکے۔ حالانکہ ہلمند کے ایک صوبائی کونسل کے رکن نے وائس آف امریکا  کو انٹرویو  دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ ‘ہلمند میں ہمارے سکیورٹی اہل کاروں کو  عوام  کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے، بلکہ وہ ہمارے خلاف مجاہدین کا ساتھ دے رہے ہیں اور امریکا کے خلاف مجاہدین کی مدد کر رہے ہیں۔’ کابل کے غلام افراد یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ اس قسم کے طفلانہ اور احمقانہ  پروپیگنڈوں سے افغانستان کے جہاد دوست  عوام اور مجاہدین سے ہمدردی رکھنے والے مسلمانوں کو مزید دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ افغان عوام نے کبھی اپنی سر زمین پر جارحیت پسندوں  اور ان کا ساتھ دینے والوں کو معاف کیا ہے اور نہ ہی کریں گے۔ یہ افغان عوام کا ایمانی فیصلہ ہے، جو انہوں نے اپنے عمل سے ثابت بھی کیا ہے۔

اسی طرح جارحیت پسندوں اور ان کے غلاموں کے حق میں دن رات یک طرفہ رپورٹنگ کرنے والا میڈیا بھی یاد  رکھے کہ اس قسم کے رویے سے آپ کی رہی سہی حیثیت  مزید گِر جائے گی، جس سے اپنے مذموم مقصد کے حصول میں ہمیشہ ناکام رہو گے ۔ ان شاء اللہ