امن کانفرنسوں کا انعقاد کس طرح ہونا چاہئے

آج کی بات کچھ دن پہلے میڈیا میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ جلد ہی ترکی میں افغانستان کے بارے میں ایک اہم اور فیصلہ کن کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں افغانستان کے معاملے میں شامل اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز بھی شرکت کریں گے، یہ […]

آج کی بات
کچھ دن پہلے میڈیا میں یہ بات گردش کررہی تھی کہ جلد ہی ترکی میں افغانستان کے بارے میں ایک اہم اور فیصلہ کن کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا، جس میں افغانستان کے معاملے میں شامل اسٹیک ہولڈرز کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز بھی شرکت کریں گے، یہ کانفرنس جس کی کئی ہفتوں سے بحث ہورہی تھی اور یہاں تک کہ کابل انتظامیہ کے مختلف وفود اور منصوبے تیار کئے گئے، مگر ان تمام اقدامات اور تیاریوں کے باوجود کانفرنس مقررہ وقت پر منعقد نہیں ہوئی، آئیے اس کانفرنس کے پس منظر پر ایک نظر ڈالیں اور اس کے عدم انعقاد کی وجہ کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ کی سابقہ انتظامیہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ عالمی سیاست کے بارے میں اپنے طور پر اقدامات اٹھاتی تھی اور علاقائی ہم آہنگی کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی، جبکہ جو بائیڈن کی سربراہی میں نئی انتظامیہ ہر اہم مسئلے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرتی ہے اور ہم آہنگی سے معاملات آگے لے جانے کی کوشش کرتی ہے۔
جو بائیڈن کی انتظامیہ کے لئے افغانستان کا مسئلہ سب سے اہم مسئلہ ہے اس کے پیش نظر امریکی حکام فوجی انخلا کے ساتھ اہم علاقائی ممالک کی ہم آہنگی سے افغان تنازع کو حل کرنے کے عمل کو تیز کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ دنیا کے سامنے افغانستان سے خالی ہاتھ نہیں لوٹنا چاہتے، کچھ عرصہ قبل امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی کو ایک خط بھیجا تھا جس کا پہلا پیراگراف یہ تھا کہ امریکہ نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روس ، چین ، پاکستان ، ایران، ہندوستان اور امریکہ کے وزرائے خارجہ اور خصوصی مندوبین کا اجلاس طلب کرے تاکہ وہ افغان امن عمل کی حمایت کے لئے مشترکہ حکمت عملی اختیار کریں۔
امریکی حکام کے اسی ارادے سے ترک کانفرنس کا معاملہ اٹھ گیا اور کہا جاتا تھا کہ اس اہم کانفرنس جس میں بین الاقوامی اور علاقائی ممالک کے علاوہ مختلف افغان جماعتیں بھی شرکت کریں گی، اپریل کے وسط میں ترکی میں منعقد ہو گی۔
لیکن اس کانفرنس کے منصوبہ کی کمزوری یہ تھی کہ اس کانفرنس کی منصوبہ بندی امریکی طرف سے خود ہی کی گئی تھی، جتنا امریکہ اور کابل انتظامیہ کے حکام اس کانفرنس کے بارے میں سرگرم عمل تھے، اس کے پیش نظر امارت اسلامیہ نے اس میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، نتیجہ یہ ہوا کہ کانفرنس کے انعقاد کے لئے امریکہ کی یکطرفہ کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور وقت مقررہ پر کانفرنس کا انعقاد نہیں ہوا۔
ان تجربات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امن کے لئے جو بھی قدم اٹھایا جاتا ہے، یا کوئی بھی میٹنگ یا کانفرنس ہوتی ہے، وہ یک طرفہ نہیں ہونا چاہئے، جس طرح امریکہ فوجی دباؤ کے ذریعے امارت اسلامیہ پر اپنے منصوبے مسلط کرنے میں ناکام رہا ہے، اسی طرح وہ سیاسی دباؤ کے ذریعے یکطرفہ اقدامات سے امارت اسلامیہ پر اپنے منصوبے لاگو نہیں کر سکتا، امن کے لئے مستقبل میں جو کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، وہ وقت ، مقام اور موضوع سے متعلق تمام تفصیلات باہمی افہام و تفہیم اور ہم آہنگی سے طے کیا جانا چاہئے تاکہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں۔