جارحیت پسندتدریجا فرار ہورہے ہیں۔ ذبیح اللہ مجاہد

ملک میں سال 1433ھ 2012ء کے جہادی کارروائیوں اور حالات کے متعلق الامارہ ویب سا ئٹ نے امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے ایک تفصیلی اور ہمہ جہت بات چیت کی ۔ قارئین کرام کی دلچسپی کے پیش نظر آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔ اگر جارحیت پسند سو سالوں تک جارحیت […]

ملک میں سال 1433ھ 2012ء کے جہادی کارروائیوں اور حالات کے متعلق الامارہ ویب سا ئٹ نے امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے ایک تفصیلی اور ہمہ جہت بات چیت کی ۔ قارئین کرام کی دلچسپی کے پیش نظر آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔

اگر جارحیت پسند سو سالوں تک جارحیت کو طول دینا چاہیں تو ہم اتنے ہی عرصے تک مقابلے کا ارادہ اورحوصلہ رکھتے ہیں۔

ہم نے اس سال بڑے اور ہلاکت خیز حملوں سے دشمن کو سمجھا دیا کہ ان کا کوئی پختہ کیمپ یا کوئی حفاظتی تدبیرہمارے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

مجاہدین نے مختلف ذرائع سے دشمن کی صفوں میں بہت زیادہ اور انتہائی پیچیدہ نفوذ کیا ہے ۔

سوال : امارت اسلامیہ کے ترجمان محترم مجاہد صاحب سب سے پہلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں پہلا سوال   یہ کہ اگر اس سال الفاروق آپریشن کی  بڑی فتوحات ، کامیابیوں اور بڑے حملوں کے بارے معلومات فراہم کریں تو مہربانی ہوگی۔

جواب: الحمد لله وکفی والصلوة والسلام علی عباده الذین اصطفی امابعد: اس سال کا الفاروق آپریشن دیگر سالوں کے بہ نسبت خاص خصوصیات کا حامل تھا ، سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ مجاہدین نے اس سال کئی بڑے فوجی اہداف تک پہنچ اور رسائی حاصل کی ۔ مثال کے طورپر مجاہدین نے بگرام کے ہوائی اڈے میں بڑے امریکی جنرل مارٹن ڈیمسی کا خصوصی طیارہ تباہ کردیا حالانکہ مارٹن ڈیمسی کا دورہ افغانستان انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور وہ سخت سیکیورٹی میں بگرام آیا تھا ۔ لیکن مجاہدین کو سب کچھ معلوم ہوگیا اورانہوں نے ان کے طیارے کو نشانہ بنالیا ۔  ہلمند کے ضلع شوراب میں غاصب افواج کے بڑے کیمپ پر بے مثال حملہ جس میں بھاری جانی نقصان کے علاوہ ایک درجن قیمتی فوجی طیارے تباہ ہوگئے ،اس سے پہلے اتنی بڑی تباہی کی مثال نظر نہیں آئی ۔ خوست میں صحرا باغ پر بڑا حملہ، اسی طرح خوست کے پرانے ہوائی اڈے پر جہاں سی آئی اے کا مرکز قائم ہے۔حال ہی میں ہونے والا حملہ ، کابل کے مرکزی شہر میں سخت سیکیورٹی انتظامات کے باوجود دشمن پر کاری حملے ، ننگرہار ہوائی اڈے اور بڑے امریکی اڈے پر دومرتبہ وسیع حملے۔ میدان وردگ میں امریکی اڈوں اور مراکز پر بڑےحملے ۔ اسی طرح پکتیا میں دشمن کے ایک بڑے اڈے پر حملہ جس میں وہ اڈا مکمل طور پر تباہ ہوا ۔ اسی طرح قندہار ، ہلمند اوردیگر صوبوں میں روزمرہ کی کامیاب کارروائیوں میں سینکڑوں فوجی وسائل کی تباہی ۔ لوگر میں دو مرتبہ اہم امریکی مراکز پر حملے ۔کابل کے شمال میں امریکی رسد کی کمپنی ’’سپریم “کی مکمل تباہی۔ ملک کے شمال میں دشمن پر مسلسل حملےاور بہت سے علاقوں پر مجاہدین کا قبضہ ۔  پکتیا کے ضلع زرمت میں امریکی اڈہ پر حملہ ، اس طرح کے اور اہم حملے جس نے دشمن کو بھاری نقصانات پہنچائے اور ان کے حوصلے توڑ کر رکھ دیے ۔ اس طرح کے منظم اور کامیاب حملوں نے ایک طرف جارحیت پسندوں کو ہلاکر رکھ د یاتو دوسری طرف دنیا والوں کو بھی حیران کردیا ۔ اس طرح دشمن کی اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی اس آپریشن کا اہم حصہ ہے۔ جس میں حال ہی میں کرزئی حکومت کے انٹیلی جنس کے سربراہ اسداللہ خالد مجاہدین کے حملوں کا نشانہ بنے۔ دوسری طرف روزانہ کی کارروائیاں پچھلے سالوں سے کئی گنا زیادہ تھیں ۔ جنگ کے موسم میں اتنے حملے ہونے لگے کہ ہمارے خبر رساں اور خبر بنانے والے ساتھیوں کے لیے خبروں میں اس کا احاطہ کرنا مشکل ہوگیا ۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ کچھ مہینوں میں دشمن نے بھی مجاہدین کی طرف سے  3000سے زیادہ حملوں کا اعتراف کیا ۔ کابل حکومت کا صدر بھی اپنے فوجیوں اور پولیس کی ہلاکتوں پر اپنا خدشہ ظاہر کررہاتھا ۔

اس سال کی کارروائیوں کی ایک خصوصیت دشمن کی صفوں میں نفوذ تھا۔ جو واقعتا انتہائی طاقت ور اور گہرا تیکنیک ہے ۔ اس طرح اگر ایک طرف خارجی فوجیوں پر داخلی فوج کی شکل میں سینکڑوں کاری حملے ہورہے ہیں تو دوسری طرف کابل حکومت کی صفوں کے بیچ میں سے وسیع انٹیلی جنس معلومات کے حصول سے مجاہدین کے لیے انتہائی باریکی سے کارروائیاں منظم اور مکمل کرنےکی سہولت بھی میسر ہوئی ہے ۔

ایک اور معنوی خصوصیت یہ تھی کہ اس سال کی کارروائیوں نے حسب سابق دشمن پر زیادہ رعب ڈالا ہے ۔ اکثر علاقوں میں خارجی اور داخلی فوجی اپنے مراکز سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے ۔ اگر مجاہدین کو دیکھتے ہیں تو ڈرتے ڈرتے اپنی جان بچانے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں ۔ یہ دشمن کی شکست کی واضح نشانی ہے ۔

اس سال کی ایک اور جہادی خصوصیت یہ ہے کہ دشمن نے فرار کا عملا آغاز کردیاہے  ۔اوردشمن ملک کے کئی صوبوں مثلا فاریاب، سمنگان اور دیگر کچھ علاقوں سے ایک ساتھ نکل گیا ۔ بادغیس کے ضلع مقر کے علاوہ سارے اڈے خالی ہوگئے ہیں۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے غاصبوں نے عسکری میدان میں شکست تسلیم کرلی ہے ذرائع ابلاغ پر جتنے علاقے یا جتنے اڈے خالی کرنے کا وہ اعتراف کررہے ہیں اس سے زیادہ انہوں نے علاقے اور اڈے خالی کیے ہیں ۔ ملک کے بہت سے حصے ان کے وجود نامسعود سے پاک ہوچکےہیں ۔اور وہ  عملا تدریجی طورپر فرار ہورہے ہیں ۔

سوال :       کچھ عرصہ قبل دشمن نے دعوی کیا کہ مجاہدین کے حملے ماضی کی بہ نسبت کم ہوچکے ہیں ۔ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

جواب :      ایسے اعلانات وہ گیارہ سالوں سے کررہے ہیں اب اور بھی کریں گے مجاہدین کے حملے موسم کے مطابق شروع ہوتے اور موسم کے مطابق اس میں قوت آتی ہے ۔ہمارے ملک کے موسمی حالات کے پیش نظر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کارروائیوں کا حجم دوسرے وقت کے بہ نسبت کچھ بدل جاتا ہے مگر یہ مجاہدین کی کمزوری یا دشمن کی قوت کے باعث نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی اس کو لے کر پروپیگنڈا کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب اکثر صوبوں میں برف باری ہوجاتی ہے ،یا سردی بڑھ جاتی ہے تو رات گزارنا مجاہدین کے لیے فطری طورپر مشکل ہوتا ہے لیکن پھر بھی مجاہدین نے یہ ثابت کیا ہے کہ سال کے دوران دشمن پر اپنے حملے جاری رکھیں ۔ دوسری طرف دشمن مقابلے میں کمزور ہونے لگا ہے ۔

پورے ملک سے چار سو سے زیادہ اہم اور عمدہ مراکز صرف خارجی غاصبوں نے سمیٹے اور خالی کیے ہیں ۔ اور پنے فوجیوں کی گشتیں اور حرکتیں کنٹرول کرکے کم کی ہیں ۔ اب ان علاقوں میں مجاہدین کو کارروائیوں اور حملوں کے مواقع میسر نہیں اور یا ایسے مواقع انتہائی کم ہوگئے ہیں ۔ ویسے بھی جنگ ان مقامات میں ہوتی ہے  جہاں دشمن موجود ہو ۔ جس علاقے سے دشمن فرار ہونے لگے تو اس علاقے میں جنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔وہاں مجاہدین کو اقتدار مل رہا ہے اور امن قائم ہونے لگا ہے تو حملے بھی نہیں ہوتے ۔ حملے کم ہونے کی وجہ دشمن کا فرار ہے نہ کہ مجاہدین کی کمزوری ۔ قندہار کے کچھ علاقوں میں مجاہدین کبھی کبھی بتاتے کہ ہم دشمن کے کیمپوں کے قریب جاکر ان پر فائرنگ کرتے ہیں تاکہ وہ باہر آئیں مگر وہ باہر نہیں آتے ، دشمن کا باہر نہ آنا بھی حملوں کی تعداد میں کمی کا باعث ہوتا ہے ۔  دوسری طرف اپنی فتح اور کامرانی کے جو اعلانات ان کی جانب سے ذرائع ابلاغ پر ہورہے ہیں یہ سب ہارا ہوا حوصلہ اور گراہو ا مورال واپس کرنے کی کوشش ہے ۔ جس طرح اکثرمیڈیا غاصبوں کے اختیار میں ہے تو میڈیا کے ذریعے ہر سال وہ اپنا مورال ٹھیک کرنے کے لیے مستقل پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔ جہادی مزاحمت کے ابتدائی سالوں میں وہ ہر دن سینکڑوں مجاہدین ختم کرنے کے جھوٹے اعلان کیا کرتے تھے اور ساتھ یہ بھی شور مچاتے کہ اس سال مجاہدین کا زور ٹوٹ چکا ہے اب مزید مقابلے کی سکت ان میں نہیں رہی ۔ بالآخر ان کے اس طرح کے اعلانات سے وہ شرمندہ ہونے لگے، لوگوں کو حقائق کا ادراک ہونے لگا پھر مزید طرح طرح کے پروپیگنڈے ہونےلگے مثال کے طور پر گذشتہ سال انہوں نے دعوی کیا کہ مجاہدین آمنے سامنے جنگ نہیں لڑسکتے ، بارودی سرنگوں کے ذریعے لڑتے ہیں ۔ حالانکہ ان بارودی سرنگوں نے ان کو اس وقت بھی پریشان کیا تھا اب بھی وہ اسی سے پریشان ہیں ، اس سال بھی انہوں نے یہی پروپیگنڈا کیا حالانکہ اس سال کی کارروائیاں پہلے کی بہ نسبت 20فیصد زیادہ موثر تھیں ۔ خاص طورپر کچھ پیش رفتیں ایسی ہوئیں کہ ماضی میں اس کی مثال بھی نہیں ملتی ۔

سوال : کچھ علاقوں میں مختلف حربوں سے علاقائی اربکیوں کو {کراَئے کے رضا کار} عوامی بیداری کی تحریک کےنام پر اٹھائے گئے ۔ ذرائع ابلاغ میں یہ کافی گرم موضوع رہا اور اس کی اہمیت پر کافی بحث مباحثے بھی ہوئے ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد عملی طورپر ایسے اقدامات نظر نہ آئے ۔ آپ موجودہ حالات میں ان کے کردار کے متعلق کیا کہیں گے کیا وہ کامیاب ہوگئے ہیں ؟

جواب : بدقسمتی سے جارحیت پسندوں اور ان کے مقامی کٹھ پتلیوں نے عام لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے ہماری کئی تاریخی ، روایتی، تہذیبی اور دینی اصطلاحات کا اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور انہیں بدنام کرکے رکھ دیا ۔ جیسے لویہ جرگہ کا تاریخی روایتی نام ، جو ملک میں ملک کی خودمختاری کے لیے بلایا جاتا تھا۔ اب اسی نام سے کچھ سدھائے ہوئے چہروں کو مملکت کو فروخت کرنے کے معاہدے کے لیے جمع کیا ، اور اس  تاریخی اور شاندار روایات کے حامل کلمہ کوجعلی طورپر استعمال کرکے بدنام کر  دیا ۔ اسی طرح “دینی علماء کی شوری”  یا “اربکی” کا لفظ جو تاریخ میں اس قومی لشکر کو کہاجاتا تھا جو غاصب دشمن کے خلاف ملک کا دفاع کرتاہو ۔ نہ کہ ان کی چاکری اور چوکیداری کا کام سرانجام دیتاہو۔ یہ لفظ چوروں ، ظالموں اور مسلح جنگجوؤں کی اس بے مہار مخلوق کے لیے استعمال ہونے لگا جنہیں چندروپوں کی خاطر دین ، قوم ،وطن اور کسی کی عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ۔ اربکی کا لفظ جب بدنام ہوا تو عوام کو اس لفظ سے نفرت ہونے لگی ۔

پھر ان جنگجوجتوں کے لیے عوامی بیداری کا پاک کلمہ استعمال کیا ۔ اور اسے بھی بدنام کر کےدیا ۔ ان لوگوں نے 19سو کے جنگجو یاد دلائے جن کے مظالم سے تنگ آکر ہی لوگ تحریک اسلامی طالبان کے دامن میں پناہ لینے لگے تھے ۔ تحریک اسلامی طالبان کا وجود ہی ان مظالم اور وحشتوں کا ردعمل تھا ۔ خوش قسمتی سے ان نئے مظالم کے خلاف بھی لوگ طالبان کو گلے لگارہے ہیں ۔ امارت اسلامیہ بھی ان جتہ بند مظالم کا خاتمہ اپنا پہلا فرض سمجھتی ہے ، اسی لیے تو ان وحشی عناصر کو چاہے وہ اربکیوں کے نام سے ہوں یا کسی اور نام سے سخت نقصان پہنچایا اور یہ سلسلہ انشاء اللہ آگے بھی جاری رہے گا ۔ اس لیے کہ عوام کے جان ، مال اور عزت وآبرو کا تحفظ امارت اسلامیہ اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے ۔ امارت کبھی بھی عوام کے جان ومال اور عزت کے دشمنوں کو سراٹھانے کا موقع نہیں دے گی.

آپ کے علم میں ہے اربکیوں کے نام سے جو لوگ غزنی کے ضلع شلگر میں جمع ہوئے تھے ۔ صوبہ غزنی کے مجاہدین رہنماوں کی اچھی تدبیر اور اللہ تعالی کے فضل سے ان کو لگام ڈالا گیا ۔ ان کے اہم افراد مارے گئے اور کثیر تعداد میں اسلحہ اور اہم جنگی وسائل مال غنیمت میں آئے ۔ باقی رہ جانے والے چرسی اور پوڈری کچھ تو ایران چلے گئے کاروبار کرنے اور کچھ نے توبہ تائب ہوکر ہتھیار ڈالدیے ۔ اس طرح ان کا وجود ختم ہوگیا ۔  صوبہ لغمان میں بھی اربکیوں کے اہم رہنما سب ایک دن میں مارے گئے ،ان وجود بھی عدم ہوگیا ۔ ننگر ہار اور پکتیا میں بھی انہیں سخت نقصان پہنچایا گیا ۔ اب وہ اس قابل نہیں کہ کسی کو نقصان پہنچاسکیں ۔

سوال :       لغمان ، ننگرہار اور اس کے بعد پروان کے غوربند کے علاقے میں کابل حکومت کے فوجیوں نے اعلان کیا کہ مجاہدین کے خلاف تحریکیں اٹھی ہیں اور یا عنقریب اٹھیں گی ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ کیا کابل حکومت علانیہ اور کھلم کھلا اس سازش کی پشت پناہی کرنا چاہتی ہے؟

جواب:       وہ لوگ گھبرائے ہوئے ہیں ۔ انہیں راستہ سجائی نہیں دیتا ، ہر طرف ہاتھ پاوں ماررہے ہیں ، پیسے تقسیم کرتے ہیں لیکن انہیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ، صرف پروپیگنڈے کے لیے حقائق سے بہت دور اعلانات کرتے ہیں ۔ اب وہ فرضی باتوں اور توہمی اعلانات سے اپنے آقاوں کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو دلاسہ دینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ خود مغربی ذرائع نے اربکیوں کی تشکیل کو ایک ناکام کوشش قرار دیا ہے ۔ ہر علاقے کے لوگ اربکیوں کے وہ جرائم دیکھ رہے ہیں جو دوسرے لوگ ایک لمحے کے لیے برداشت نہیں کرسکتے ۔ جنسی زیادتیوں سے لے کر گھروں کی تلاشی اور لوگوں کو اغواء کرنے تک طرح طرح کے واقعات ان اربکیوں کے ہاتھوں انجام پاتے ہیں جس کی رپورٹیں خودحکومتی اور مغربی میڈیا میں نشرہوتی ہیں۔ اور ہر شخص کو اس کا پتہ ہے۔ کابل حکومت اور امریکی فوج پہلے اس بات پر متفق تھے کہ اربکی اور عوامی بیداری کے نام پر پیسوں کے ذریعے ملیشیا کو مسلح کردیا جائے ۔ لیکن جب اس کام کا آغاز ہوا تو اکثر علاقوں میں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ اب وہ مایوس نظر آتے ہیں ۔ اب کابل حکومت اور امریکی فوج کے درمیان بھی تیکنیکنی حوالے سے بے اتفاقیاں پائی جاتی ہیں ۔ عام لوگوں کے بھی اس حوالے سے منفی احساسات ہیں ۔ اب یہ سلسلہ بڑی حد تک صرف پروپیگنڈے پر مبنی اعلانات اور کوششوں تک محدود ہے ۔ دوسری طرف آپ جانتے ہیں اس سال صوبہ پروان کےکئی علاقوں میں جہادی کارروائیاں قابل ستائش رہیں۔ خصوصا غوربند کے تین مضافاتی اضلاع میں ۔ دشمن کی یہ کوشش ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعے خود کو بااقتدار ثابت کرنے کی کوشش کرے ۔ کسی علاقے میں وہ اپنے اقتدار کے قیام کے لیے پولیس اورفوج بھیج نہیں سکتے ، کیوں کہ عوامی ردعمل کا خطرہ ہوتا ہے یا وہ اپنے نقصانات نہیں دیکھنا چاہتے تو اس لیے وہ اربکیوں کی تشکیل کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں ۔ پھر نام بھی خود دیتے ہیں انہیں ، گویا کہ یہ لوگ خود بیداری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔  درحقیقت اس طرح کے اعلانات اور  پیشگی پروپیگنڈاکرنا خود دشمن کے تمام سیکیورٹی ذرائع کی ناتوانی اور کمزوری پر دلالت کرتی ہے ۔ وہ اگر حقیقتا حس رکھتے تو اس طرح کے اعلانات سے شرم محسوس کرتے ۔ اس لیے کہ اس طرح اعلانات سے خود ان کے عدم کنٹرول اور ناتوانی ظاہر ہوتی ہے ۔ مگر ہم اپنے عوام کو اطمینان دلاتے ہیں جس طرح دشمن کے سارے حربے شرمساری اور شکست سے دوچارہوئے یہ سلسلہ بھی انشاء اللہ ناکامی کا شکارہوگا اور اس کا کوئی فائدہ ان کو حاصل نہ ہوگا ۔

سوال : رپورٹوں کے مطابق ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس سال مجاہدین کی جانب سے حملوں اور دشمن کے خلاف حملوں کے اعداد وشمار اور حجم بہت زیادہ رہا ۔آپ کی نظرمیں اس کا باعث کیا ہوسکتا ہے ؟

جواب : ماضی کی بنسبت مجاہدین نے فوجی وسائل کے استعمال اور جنگی مہارت دونوں میں پیش رفت کی ہے ۔ دشمن اب پہلے سے زیادہ مرعوب ہے۔ مقابلے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ دوسری طرف عوامی حمایت بھی ماضی کی بہ نسبت زیادہ اعلانیہ ہوگئی ہے ۔ جس کے اسباب میں اربکیوں کے مظالم اور ان کی وحشت بھی شامل ہے۔ اسی لیے تو حملوں کی قوت اور تعداد دنوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ سال پچھلے جہادی سالوں کی بہ نسبت ہمارے لیے زیادہ فتح مند رہا ۔ اب مجاہدین نے ملک کے سارے حصوں میں اپنا جہادی سلسلہ پھیلا یاہوا ہے ۔

ملک کے اکثر حصوں   میں نئے جہادی محاذ کھول دیے گئے ہیں اور عوام اپنے مجاہدین بھائیوں کی مضبوط حمایت کرتے ہیں ، اس لیے فطری طورپر حملے پہلے سے زیادہ ہوں گے اور اس سے انشاء اللہ وہ اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ہماری سرزمین جلد از جلد چھوڑدیں اور ہماری آزادی اور خودمختاری تسلیم کرلیں ۔ ہماری قوم  اب جہاد کی اہمیت کو سمجھنے لگي ہیں اور مجاہدین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں یہی وجہ ہے کہ کارروائیوں کا حجم اور زیادہ ہوگیا ہے اور دشمن پر خطرناک حملے ہورہے ہیں۔

سوال :      اس سال پورے ملک کے علاوہ کابل کے شمال خصوصا پروان اور کاپیسا کے صوبوں میں مجاہدین کی تعداد ماضی کی بنسبت کئی گنا بڑھ گئی ہے جس نے دشمن کو انتہائی شدید نقصانات پہنچائے ہیں۔  جیسے غوربند کے درے میں حالانکہ مجاہدین وہاں محاصرے کی شکل میں ہیں ، اس کی وجہ کیا ہوگی؟

جواب:      اب مزاحمت پورے ملک میں عام ہوگئی ہے ۔ پہلے مختلف علاقوں میں اس حوالے سے فرق ہوا کرتا تھا لیکن اب لوگ پروپیگنڈے کي گرد غبار سے نکل آئے ہیں ، انہوں نے حقائق خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں ، اور جارحیت پسندوں کے عزائم کا انہیں علم ہوگیا ہے ۔ اور ان کے اعمال کا بھی انہوں نے خوب مطالعہ کرلیا ہے ۔ افغان ملک ، دین اور ملک کی آزادی کے عاشق لوگ ہیں ۔ پہلے کچھ عرصے تک ملک کے مختلف حصوں میں دشمن پروپیگنڈا کیا کرتا تھا لیکن اب لوگ سمجھنے لگے ہیں اور اس مقصد کے لیے متحد ہورہے ہیں ۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگر اور میدان وردگ کی طرح پروان اور کاپیسا کے صوبے مجاہدین کے لیے مجموعی طورپر بہت اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس سے ایک طرف ملک کے مرکز پر محاصرہ مکمل ہوگا دوسری طرف بگرام کا سب سے اہم امریکی ہوائی اڈا دونوں صوبوں سے نشانے پر ہوگا ۔  اس سال انہیں علاقوں سے بگرام کے ہوائی اڈے پربہت سے اچھے اور کاری حملے بھی ہوئے ۔ توقع ہے ان تمام علاقوں میں مجاہدین اور بھی مضبوط ہوں گے ۔ انہیں خارجی ممالک کے اڈوں کے قریب جاکر ٹھکانے بنانے کا موقع ملے گا ۔ اور دشمن کے سردرد میں اور بھی اضافہ کریں گے ۔ آپ صوبہ بامیان کے مجاہدین کی کارروائیوں کی رپورٹیں سنتے ہوں گے کہ ملکی کٹھ پتلیوں کے ساتھ خارجی جارحیت پسندوں کو بھی مالی وجانی نقصانات پہنچاتے ہیں ۔ جس کا دشمن بھی وقتا فوقتااعتراف کرتے ہیں ۔

سوال :       اس سال کا آپریشن پچھلی آپریشنوں سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ اس سال دشمن کے انتہائی بڑے بڑے مراکز پر انتہائی بڑے اور خطرناک حملے ہوچکے ہیں ۔ جس طرح خوست کے صحرا باغ پر حملے، لوگر اور میدان وردگ میں دشمن کے بڑے مراکز پر فدائی حملے ۔ ہلمند کے شوراب کے بڑے اور امریکیوں اور برطانیوں کے مشترک اڈے پرفدائی حملہ۔ کچھ عرصہ قبل بگرام میں بڑے امریکی جنرل پر کامیاب حملہ ۔ پکتیا کے ضلع زرمت میں واقع امریکی اور داخلی فوجیوں کے مشترکہ اڈے پر حملہ،بگرام میں خارجی ممالک کے سب سے بڑے گودام “سپریم گروپ “پر حملہ ۔ اس طرح کے اور بڑے حملے ۔ ان سب حملوں کی وجہ اور اس کا پیغام امریکیوں کے لیے کیا ہوگا جو بڑےطویل عرصے تک یہاں اڈے رکھنے کے خواہشمند ہیں ؟

جواب :      ان تمام حملوں اور کارروائیوں نے امریکی غاصبوں کو واضح اور عملی طورپر یہ دکھادیا ہے کہ اگر وہ لمبے عرصے تک یہاں رہنا چاہتے ہیں ، ہمارے ملک میں طویل عرصے تک اڈے برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ہمارے ملک اور خطے کے لیے مشکلات پیداکرنا چاہتے ہیں تو ہم بھی ان کے مقابلے میں گھبرائے ہوئے نہیں ۔ہماری قوم ان کو لمبے عرصے تک وہی سبق سکھائے گی جو گزشتہ گیارہ سالوں سے سکھاتے چلےآرہے ہیں ۔ ان کارروائیوں سے انتہائی آسانی سے ہمارے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ہم ارادہ رکھتے ہیں کہ اگر سو سال تک بھی یہاں رہنے کا سودا ان کے سرمیں سمایا ہوا ہے تو ہم سو سال تک بھی لڑنے کو تیار ہیں ۔ انہیں زخمی کریں گے ، ان کے لیے سردرد بنیں گے اور تلوار کی زور سے انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے سےروکیں گے ۔ حملوں کا واضح پیغام یہی ہے کہ تم یہاں اڈوں میں بھی ہمارے حملوں سے نہیں بچ سکتے ۔ ہم زیرزمین بنکروں میں بھی تمھیں نشانہ بناسکتے  ہیں۔ حل کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے مکمل انخلاء اور جارحیت کا مکمل خاتمہ اور بس۔

سوال :      پورے ملک میں خصوصا مشرقی علاقوں میں مجاہدین نے اس سال جہادی امور میں ترقی کے ساتھ عام لوگوں سے ماضی کی بہ نسبت اچھا اور نرم رویہ رکھا ۔ جس طرح عام لوگوں کی سماجی اور معاشرتی زندگی میں ان کے ساتھ شریک ہونا ۔ ان کی تعزیتوں میں شرکت، ان کی خوشیوں میں شرکت ، ان سے اظہار افسوس اور ان کے درمیان سالہا سال سے قائم جھگڑوں  کا تصفیہ، جس میں بہت سےمارے جاچکے ہوتے ہیں یہ سب  اس کی بہترین مثال ہے  ۔ اس سلوک اور اچھے رویے کاراز کیا ہے؟

جواب :      امارت اسلامیہ کے تمام مجاہدین اپنی دینی ذمہ داری کی وجہ سے اس بات کے مکلف ہیں کہ ہر مسلمان بھائی کے ساتھ اچھے اخلاق، اچھے سلوک ، مناسب رویہ اور ہمدردی رکھے ۔ وہ جو کبھی کبھی مجاہدین اور عام لوگوں کے درمیان دشمن کی جانب سے رکاوٹیں پیداکی جاتی تھیں جو مسائل کا سبب ہوتا وہ ایک استثنائی صورت تھی ۔ ور نہ درحقیقت ہر مجاہد اپنے ہم وطنوں کے ساتھ اچھا رویہ رکھنے کا مکلف ہے ۔مجاہدین کی جانب سے لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کے کئی اسباب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس سال دشمن کئی علاقوں سے نکل رہا ہے۔ اب مجاہدین کو اپنے عوام سے قریب ہونے اور ان کو اپنائیت کا احساس دلانے کا موقع ملا ہے ۔ ان کے لیے اب ممکن ہوا ہے کہ عوام سے مضبوط تعلق قائم کریں جو کہ ایک فطری مطالبہ ہے ۔ دوسری یہ کہ اس سال کے آغاز میں مجاہدین معرکے کے میدان میں اس وقت داخل ہوئے جب علماء اور اساتذہ کی جانب سے ان کی اخلاقی تربیت مکمل ہوگئی تھی۔ ان کے تربیتی کورس مکمل ہوچکے تھے ۔ اور ان کو تاکید کی گئی تھی کہ لوگوں کے ساتھ شرعی اور انسانی سلوک کریں ۔

عالی قدر امیرالمومنین نے اپنے عید کے پیغاموں میں اپنے عوام کے ساتھ اچھے سلوک کی بہت زیادہ تاکید کی تھی ہم نے الحمد للہ تمام مجاہدین میں اس کے اثرات دیکھے ۔ اور جس طرح آپ نے ذکر کیا مجاہدین نے لوگوں سے بہت اچھا اور شفقت و محبت سے پھرپور سلوک کیا ۔ دوسری طرف لوگوں کے درمیان تنازعات اور دعووں کے حل کے لیے تو امارت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اسلامی محاکمت اور یا دیگر ذرائع سےانصاف فراہم کریں ۔ جب لوگ انصاف کے حوالے سے مطمئن ہوں گے تو طبعا وہ فیصلہ تسلیم کرنے پر تیار بھی ہوں گے ۔ اور اپنے تنازعات حل بھی کریں گے۔ اس حوالے سے امارت اسلامیہ نے پہلے بھی اپنی خدمات لوگوں کو پیش کی تھیں۔

آپ کے علم میں ہوگا امارت اسلامیہ نے ہر صوبے کے لیے الگ الگ عدالتیں تشکیل دی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی اور ضلعی سطح پرکمیشن بھی قائم ہیں ۔ اس طرح اکثر صوبوں میں شکایات کے لیے نمبر بھی دے رکھے ہیں ۔یہ سارا انتظام عوام کی خدمت کے لیے تشکیل دیا گیا ہے  .عام لوگوں کے نقصانات کا موضوع بھی دشمن کی جانب سے کبھی کبھی امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے خلاف اٹھایا جاتاہے ۔ مجاہدین کے خلاف اس کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ۔ امارت اسلامیہ کے “رہبری شوری” کی جانب سے اس مسئلے پر خاص توجہ دی جارہی ہے ۔ انتظامی کمیشن کے نام سے حال ہی میں اس طرح کے واقعات کے روک تھام کے لیے ایک خاص کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس کے اچھے اثرات انشاء اللہ بہت جلد ظاہر ہوں گے ۔ دوسری بات یہ کہ جب اختیار واقتدار کا دائرہ پھیلتا ہے اور عوام میں اس کا نفوذ اور اس کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں تو معاشرتی رویے اور اجتماعی زندگی کی زیادہ ضرورت پیدا ہوجاتی ہے اسی لیے امارت اسلامیہ اس طرح کا سلوک اور رویے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے ۔ جس طرح ہم اپنے عوام کے خوشی غم میں شریک ہیں تو پھر حالات ٹھیک ہونے کی وجہ سے فزیکلی طورپر بھی ہمیں شریک ہونا چاہیے ۔

سوال : ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سال امارت اسلامیہ نے جہادی اور عسکری امورکے ساتھ لوگوں کی آگاہی اور دعوت وارشاد پر بھی خصوصی توجہ دے رکھی تھی اس کی وجہ کیاتھی؟

جواب :      امارت اسلامیہ اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے کہ فرصت ملتے ہی اپنے عوام اور ملک کے ساتھ آئندہ اور رواں حالات کے متعلق اپنا نقطہء نظر شریک کرے اور مخالف لوگوں کی رائے سنے ۔ افغانستان کی سرنوشت خودمختار افغانوں کے فیصلے اور عمل سے تعلق رکھتی ہے ۔ دوسری طرف ہم نہیں چاہتے جارحیت پسندوں کی صف میں کھڑے افغانوں کو صرف اور صرف عسکری دباو کے ذریعے زیر کریں بلکہ ہم انہیں اپنی اصلاح کا وسیع موقع بھی فراہم کریں گے ۔ اس سلسلے میں ہمارا جلب وجذب کا موثر میکانزم کام کررہاہے جس سے واقعی طورپر انتہائی  اچھے نتائج برآمد ہورہے ہیں ۔

بہت سے افغان جو غلط فہمی میں دشمن کی صفوں میں کھڑے تھے حقائق کے ادراک سے امارت اسلامیہ کے ساتھ مل گئے ہیں ۔ اور اپنے اسلحہ اور اہم وسائل مجاہدین کے حوالے کردیے ۔ عمومی طورپر یہ سلسلہ بہت مفید رہا ۔ ہمارے عوام جارحیت کی فضا میں ہیں اگر مجاہدین کی جانب سے ایسا میکانزم نہ ہو اور لوگوں کی اصلاح نہ کی جائے، انہیں دعوت نہ دی جائے تو یہ فطری بات ہے کہ وہ محسوس یا غیر محسوس انداز میں دشمن کےمقاصد کے لیے استعمال ہوں گے ۔ امارت اسلامیہ اپنی شرعی ذمہ داری کی رو سے اپنے لوگوں کے لیے وہ تمام حالات ہموار کررہی ہے جو ان کی اصلاح اور ہدایت  کاباعث اور مجاہدین کے لیے مزید قوت اور کامیابی کا سبب بنے ۔

سوال :      اس سال  جلب وجذب کمیشن کی ابتدائی کامیابیاں کس حدتک رہیں اور لوگوں میں اس کے اثرات کتنے تھے ؟

جواب :      خوش قسمتی سے اس اقدام نے عوام کے ذہنوں میں حالات کا مثبت پہلو زیادہ راسخ کردیا ہے ۔ جارحیت پسندوں اور ان کے مزدوروں کے پروپیگنڈے کا غبار بیٹھ گیا ہے ۔ بڑی سطح پر منتشر عوامی شخصیات سے تعلق قائم ہوا ہے ۔ اسی طرح جلب وجذب کے راستے دشمن کی صفوں سے سینکڑوں فوجی پولیس اربکی اور دیگر افراد نکل گئے اور انہوں نے امارت اسلامیہ سے تعاون کا عزم کیا ہے جلب وجذب یا دعوت وارشاد کمیشن کے ذمہ داران کے مطابق 1300افراد دشمن کی صفوں سے نکلے ہیں ۔ انہوں نے اپنے علاقوں میں مجاہدین کو خدمت کے لیے وسیع مواقع فراہم کیے ہیں اس لیے مجاہدین کو سینکڑوں میل بھاری اور خفیف اسلحہ اور دیگر اہم وسائل ہاتھ آئے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

سوال : اس سال مجاہدین نے آمنے سامنے جنگ کے ساتھ دشمن کی صفوں میں نفوذ کرنے اور گھسنے پر زیادہ توجہ دے رکھی تھی اس کی وجہ کیا ہے ؟

جواب : عالی قدر امیر المومنین نےتمام عسکری اور جلب وجذب کے ذمہ داران کو بھی ہدایت کی تھی کہ دشمن کی صفوں میں نفوذ کا معاملہ اپنے پلانوں کے ایجنڈے میں سرفہرست رکھیں اور دشمن کی صفوں میں کھڑے افراد سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ اپنے سنگینوں کا رخ دشمن کی طرف پھیردو ۔ یہ حالات اور وقت کے مطابق ایک بجا اقدام تھا ۔ ہم نے دشمن کے ساتھ آمنے سامنے جنگ کے ساتھ دشمن کی صفوں میں نفوذ کے مسئلے پر توجہ دی ۔

اس اقدام کا مقصد دشمن کو اندر سے تباہ کرنا تھا ۔تاکہ ان کے حوصلے توڑ کر رکھ دیں ۔ ہر جگہ ان کی دفاع کو خطرات سے دوچار کردیں ۔ یہ ہماری بڑی کامیابی ہے کہ ہم نے دشمن کی صفوں میں ایسے سرفروش داخل کردیے ہیں ۔ دشمن کے اندرسے اس پر حملےکرکے ہم نے دشمن کو چاروں شانے چت کردیا ہے ۔ آپ جانتے ہوں گے کہ مجاہدین کے ان حملوں نے کئی اتحادی ممالک کو یہ بات سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ افغانستان کی جارحیت میں امریکا کے ساتھ اپنی دوستی ختم کردیں ۔ انہیں حملوں کے باعث امریکا خود گھبراہٹ کا شکار ہوا ہے ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ امریکی صدر اوباما ، امریکی کانگریس، پینٹاگون کے بلندرتبہ جنرلز اور فوجی عہدیدار سب حرکت میں آگئے ۔ سب نے اپنے ہارے ہوئے فوجیوں کو دلاسا دینا شروع کیا اور ان کے شکستہ حوصلوں کو پھر سے تعمیر کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔

یہ خود ان کارروائیوں کی کامیابی کا نتیجہ ہے ۔ امارت اسلامیہ اب مزید اور بھی ارادہ رکھتی ہے کہ دشمن کی صفوں میں نفوذ کے حوالے سے اپنی کوششیں اور بڑھادیں ۔ اب تک ہم تجربات کے ماحول میں تھے اب ہم تجربات سے بڑھ کر اس کام کو مقصدی حیثیت سے طاقتور بنانے کی کوششیں کریں گے ۔ اب بھی دشمن کے اہم اور کلیدی مقامات پر مجاہدین تعنیات ہیں جو کارروائی کے انتظار میں ہیں ۔

سوال : وہ فوجی جن کی تربیت دشمن کی صف میں ہوگئی ہوتی ہے ، مجاہدین سے محض تعلق اور رابطہ رکھنا بھی ان کے لیے مشکل ہوتا ہے مجاہدین کے لیے کیسے ممکن ہوتا ہے کہ ان کو دعوت دیں اور اس قدر متاثر کریں کہ وہ امریکیوں پر حملے کریں اور اس کام میں ان کوشہادت بھی ملے تو اس کے لیے بھی تیار ہوں ؟

جواب : مجاہدین کے لیے دشمن کی صفوں میں گھس کر ان کو اپنے راستے سے روکنا اور ان کو جہاد اور قربانی کی دعوت دینا آسان نہیں ۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن اس حوالے سے مجاہدین نے کچھ ضروری اقدامات کیے ہیں ۔ وہ لوگ جو دشمن کی صفوں میں کھڑے ہیں ان کی بھی کسی حدتک اپنے دین اور اپنے وطن کے حوالے سے کچھ ذمہ داریاں ہیں جس کا انہیں اداراک کرنا ہوگا ۔ اس کام کے لیے ہم نے کچھ خاص تیکنیک استعمال کیے ہیں جس کے ذریعے ہم دشمن کی صفوں کے بیچ اپنی دعوت پہنچاتے ہیں ۔  انہیں دعوت دیتے ہیں ۔ دشمن کے بہکائے ہوئے افغانوں سے انفرادی اور رازدارانہ شکل میں ملتے ہیں ۔ ان کے مدد اور تعاون کی نگرانی کرتے ہیں  تعاون کی سطح اور توانائی معلوم کرتے ہیں اور پھر اس حوالے سے لازمی اقدامات کرتے ہیں ۔ ہم نے دشمن کی صفوں میں انتہائی پیچیدہ نفوذ کیا ہے ۔ اور یہ سلسلہ اب بہت اچھے انداز میں آگے بڑھ رہا ہے ۔ لیکن ساری جزئیات اور نگرانی کے اصول اور طریقے فوجی راز ہیں اس لیے اس کے متعلق ہم یہاں زیادہ گفتگو نہیں کرسکتے ۔ پورا طریقہ کار اور اس کی عملی شکل کی یہاں وضاحت یہاں ممکن نہیں ۔

سوال : ایک تو دشمن کے ذرائع ابلاغ کی اطلاعات ہیں اس سے اگر صرف نظر کریں تو اس طرح کے حملوں نے دشمن کو کس حد تک متاثر کیاہے ؟

جواب : میں نے اس بارے میں پہلے بھی اشارہ دیاتھا کہ ہمارے نفوذ کے بعد ہونے والے حملوں نے دشمن کو لرزا کے رکھ دیا ہے وہ سمجھ گئے ہیں۔ کہ حالات ایسے نہیں ہیں جس طرح وہ خیال کرتے تھے ۔ یہاں ان کے خلاف انتہائی قریب سے بھی جرات مندانہ کارروائیاں ہوسکتی ہیں ۔ یہ جنگ اتنی آسان نہیں جس طرح ماضی میں امریکا کے لیے رہی ہے کہ امریکی حکومتیں دیگر ممالک پر جارحیت کرتیں اور انتہائی آسانی سے قابض ہوجاتیں ۔ یہاں ایک الگ قوم سےاس کا واسطہ ہے ۔یہاں کے لوگوں کے عزائم بہت الگ ہیں ۔ دشمن کی زبان سے یا دشمن کے میڈیا سے ہم ان حملوں کے حوالے سے جتنی باتیں سنتے ہیں ہمارے حملے اور ان حملوں کے اثرات اس سے کہیں زیادہ ہیں ۔ اس شروع ہونے والی جنگ سے نکلنے کا راستہ بھی اب دشمن کو سجھائی نہیں دے رہا ۔ بزدلی اورخوف کے باعث ان کے جنرلز حالات کے متعلق کوئی موقف نہیں اپنا سکتے ۔ اور نہ وہ اس قابل ہیں کہ کم از کم اپنے لوگوں کو مطمئن کردیں ۔ تعجب کی بات ہے کہ وہ پولیس یا فوج امریکا نے خود جن کی تربیت کی تھی ان کی تشکیل وتمویل میں مکمل تعاون کیا اور ان سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اب وہی فوجی انہیں کا فراہم کیاہوا اسلحہ انہیں کے خلاف استعمال کررہے ہیں اور ان کی بنائی ہوئی گولیاں انہیں کے سینے میں ٹھنڈی ہورہی ہیں ۔

یہ یقینا ایک پریشان کن حالت ہے اور خوش قسمتی سے امریکا اب اسی صورتحال سے دوچار ہے ۔ ان حملوں کے اثرات اور اس کا دباو آئندہ زمانے میں حملوں کا گراف اونچا ہونے کے ساتھ اور بھی اونچا ہوگا ۔ ہم اس تیکنیک کو دشمن کی مکمل شکست کے لیے انتہائی اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب مزید پھیلےگا، ہم نے اس سلسلے کو اور بھی مضبوط کرنے کا ارادہ کیا ہو اہے ۔ آپ کے علم میں یہ واقعہ آیا ہوگا کہ ایک افغانی خاتون نے کابل کے قلب میں ایک امریکی فوجی افسر پر اپنے پستول سے فائرنگ کرکے اسے ہلاک کردیا ۔

سوال : افغانستان سے فوجی انخلاء کے بارے میں دشمن کے بیانات میں تضاد پایا جارہا ہے ، کابل حکومت کے کرتا دھرتا بھی اس حوالے سے گھبراہٹ کا شکارہیں کیا آپ لوگ بھی موجودہ حالات دشمن کے حق میں اتنے ہی خراب سمجھتے ہیں ؟

جواب : جی ہاں ہم دشمن کے بارے میں اس سے بھی بدتر حالات کی پیش بینی کرتے ہیں اور اس حوالے سے انتہائی تحقیقی رپورٹیں ہمارے پاس ہیں ۔ جتنے مکر وغرور سے وہ ہمارے ملک میں آئے تھے ان کاانخلاء اتنی ہی ذلت اور رسوائی کے ساتھ ہوگا ۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ بظاہر اتنہائی کمزور لوگ دنیا کی سب سے بڑی جابر اور متکبر قوت کو شکست دے رہے ہیں ۔ ویت نام کے حالات بھی ایسے نہیں تھے ۔ اس لیے کہ ویت نام میں امریکا کے خلاف سوویت یونین عوامی مزاحمت کا پشتیبان بنا ہوا تھا ۔ مزاحمت کاروں کے پیچھے سویت یونین کا بے انتہا تعاون جاری تھا ۔ اس کا اسلحہ دشمن کے خلاف میدان جنگ میں استعمال ہورہا تھا مگر حالیہ شکست امریکا کے لیے انتہائی غیرمترقبانہ شکست ہے ۔ یہ ایسی شکست ہے جس کی امریکا کو توقع بھی نہیں تھی ان کو شکست ایسے لوگوں سے ہورہی ہے جن کا فزیکلی طورپر وجود محسوس بھی نہیں ہوتا ۔ ایک نادیدہ دشمن سے مقابلہ ہے ۔ ان کی افرادی قوت بھی انتہائی کم ہے ۔ چند سادہ سے مجاہدین ہیں لیکن ان  کے اہداف اور عزائم بہت اونچے ہیں ۔ اپنے کمزور اسلحہ سے امریکا جدید ترین وسائل سے پنجہ آزمائی کررہے ہیں  اور مسلسل فتح سے ہم کنار ہورہے ہیں ۔

ان حالات کا ادراک اور اس کو برداشت کرتے رہنا واقعی آسان نہیں ہے ، اس لیے امریکی بھی بہت گھبرائے ہوئے ہیں ، اس لیے وہ اپنا غرور ہارچکے ہیں ، ان کی طاقت کا پندار ٹوٹ چکا ہے ۔ ان کی معاشی صورتحال ابتر ہوچکی ہے ۔ لوگ ان کی جنگوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں ۔ 14 ٹریلین ڈالر کے مقروض ہوچکے ہیں ۔ ان کی 12ملین آبادی بے روزگار ہوچکی ہے۔ سرمایہ داریت کے خلاف وال سٹریٹ میں علانیہ بڑے بڑے مظاہرے ہوچکے ہیں ۔ یہ سب افغان جنگ کی برکت ہے ۔ تو یہ فطری بات ہے کہ ایسے حالات دیکھ کر ہر سوج بوجھ رکھنے والا امریکی گھبراہٹ کا شکار ہوگا اور مزید تباہی سے بچنے کے لیے ضرور کوئی کوشش کرے گا ۔ مادیت پرستی پر قائم امریکا جیسے ملک کے لیے یہ صورتحال ضرور حوصلہ شکن اور تباہ کن ہوسکتی ہے۔

ابتداء میں امریکی یہاں ایک گہرے سٹریٹجک منصوبے کے ساتھ آئے تھے ۔ ابتداء میں انہوں نے اتنے پیچیدہ جنگ کا سوچا بھی نہیں تھا انہیں اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی پر مکمل اعتماد تھا لیکن اب نہ صرف ان کے اہداف کے حصول میں انہیں مشکلات کا سامنا ہے بلکہ اب انہیں ناگہانی حالات اورحادثات کا سامنا ہے ۔ ان کی افواج حوصلہ ہارچکی ہیں ۔ عوام اب مزید یہ جنگ نہیں چاہتے اور نہ ہی اسے برداشت کرنے کے قابل ہیں ۔ ان کو اقتصادی لحاظ سے تاریخی مار پڑی ہے ، ان کا دل چاہے یا نہ چاہے مگر یہ جنگ اب ان کی برداشت سے باہرہے اور انہیں مجبورا اس جنگ سے نجات حاصل کرنا پڑ رہا ہے ۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جنگ سے نجات تو چاہتے ہیں مگر جارحیت کو مزید طول بھی دینا چاہتے ہیں ۔ اس حوالے سے وہ ہمہ پہلو کوششیں بھی کررہے ہیں تاکہ اپنے اڈے برقرار رکھ سکیں ۔ اگر مجاہدین کی کارروائیاں اسی طرح جاری رہیں تو ان کے اڈوں کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا ۔ اور کابل حکومت کی حیثیت تو جارحیت پسندوں کے سائے کی ہے ۔ امریکیوں کے وجود سے ان کا وجود قائم ہے ۔

سوال : پہلے خارجی فوجی ہر سال کہیں نہ کہیں مجاہدین کے خلاف منظم اور وسیع آپریشن کرتے تھے پھربہت عرصے تک یہ دعوی کرتے کہ ہم نے مجاہدین کو کئی علاقوں سے پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ مگراس سال دشمن دفاعی پوزیشن میں رہا اور اپنی دفاعی حالت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں رہا۔ کیا ان حالات میں بھی دشمن افغانستان میں اپنے قیام کو نفع بخش تصور کرسکتا ہے؟

جواب : ایسا ہی ہے ۔ پہلے امریکی ہر سال اپنے تسلط کو وسعت دینے کے لیے مختلف ناموں سے وسیع آپریشن کرتے ۔ لیکن اب ان کی حالت بدل گئی ہے ۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ وہ یہ جنگ جیت جائیں گے ۔ مجاہدین ختم یا ہتھیار ڈالدیں گے ۔ لوگ مجاہدین کے تعاون سے دستبردار ہوجائیں گے ۔ لیکن اب ان کو سب کچھ سمجھ آنے لگاہے ۔ سب کچھ الٹا گھومنے لگاہے ۔ ان کے پیش رفت مسلسل ناکام ہورہے ہیں ۔ ان کے آپریشن پروپیگنڈے ، ہیبتناک اسلحوں کے استعمال ، باغوں کو اجھاڑنے اور گھروں کو تباہ کرنے سے زیادہ کوئی نتیجہ نہ دے سکے ۔ امریکیوں کے آپریشنوں میں ان کو اتنا جانی ومالی نقصان ہورہا تھاکہ جس کا آپریشن سے پہلے انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا ۔ اس لیے وہ مایوس ہوگئے اس لیے اب ان کو اپنی حفاظت اور بخیر وعافیت واپس نکلنے کے راستے کی تلاش ہے ۔یہ سب اللہ جل جلالہ کا فضل وکرم ہے جس نے مجاہدین کو پھر سے اتنی قوت عطاکردی ہے کہ وہ امریکا جیسی قوت کو مسخر کردیں ۔ اس وقت امریکی سمجھتے تھے کہ چند لوگوں کو دباو میں لا کر وہ کامیاب ہوجائیں گے مگر اب ان کو سمجھ آنے لگا ہے کہ یہ عوامی مزاحمت ہے ہر چٹان ہمارے خلاف مورچہ بن سکتا ہے ۔ اس لیے وہ آپریشنوں سے مایوس ہوگئے اور انہوں نے دفاعی پوزیشن اختیار کرلی ہے ۔

سوال : مغرب خصوصا امریکا میں بڑے بڑے فوجی افسروں کو اس سوال کا سامنا ہے کہ افغانستان کی جنگ وہ ہار رہے ہیں یا جیت رہے ہیں ؟ جیسے حال ہی میں نائب وزیر اعظم جوبایڈن اور امریکی پارلیمنٹ میں جنرل جان ایلن کو اس قسم کے سوالات اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ آپ بتائیں امریکی عوام میں اس گھبراہٹ اور تردد کا باعث کیا ہے اور حقیقتا حالات کس طرف جارہے ہیں جیت کی طرف یا ہار کی طرف ؟

جواب :میرے خیال میں اصل بات ہار جیت کی نہیں برملا ہارنے کا اعتراف کرنے اور نہ کرنے میں ہے ۔ اس لیے کی کئی مرتبہ بڑے امریکی فوجی عہدیداروں کا موقف تھا کہ جنگ کی شکست کا اعتراف میڈیا پر نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن کچھ دیگر کا خیال تھا کہ ہم اگر ہم اپنی شکست کا اعتراف خود نہیں کریں گے تو تاریخ ہم پر پردہ نہیں ڈالے گی اور پھر ہمیں تاریخ میں تاریخی جھوٹوں میں شمار کیا جائےگا ۔ دوسری طرف امریکی عوام کا اپنے افواج سے اعتماد مکمل طورپر اٹھ گیا ہے ۔عوام نے ان کے مسلسل جھوٹ دیکھ لیے ہیں ۔ ان کے جھوٹے وعدے جو انہوں نے افغانستان پر حملے کے وقت اپنے عوام سے کیے تھے مکمل طورپر جھوٹے ثابت ہوئے ۔ ان کے ملک میں داخلی مسائل اٹھنے لگے ہیں ۔ ان کے بیٹے اور رشتہ دار مارے گئے ہیں ۔ ان کے دیے ہوئے ٹیکس ضائع ہوگئے ۔ اب وہاں کے عوام اپنی حکومت اور سیاسیت دانوں پر مزید اعتماد نہیں کرسکتی ۔

اب صرف عام امریکیوں کو صرف اس بات میں اختلاف ہے کہ شکست تو ویسے بھی ہمارے اختیار میں نہیں بلکہ غیر اختیاری طورپر ہمیں اس کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مگر یہ شکست آبرومندانہ ہونی چاہیے ۔ تاکہ امریکاکی عالمی حیثیت ایک حد تک تو سلامت رہے ۔ اب اختلاف اس بات پر ہے کہ اس شکست کا اعتراف رسمی طورپر ہوناچاہیے یا نہیں ۔ اسی لیے آئے دن ان کے مشہور جنرلز تبدیل ہورہے ہیں یا استعفے دے رہے ہیں ۔ ہر ایک کی کوشش ہے کہ وہ شکست کا یہ مرحلہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھے ۔ ری پبلیکن اس کوشش میں ہیں کہ ڈیموکریٹک اپنے ہی دور میں شکست کا اعلان کردیں اور شکست کا اختتام انہیں کے دور میں ہو ۔

سفید فام کی کوشش ہے کہ شکست کا اعتراف سیاہ فام کے دور میں ہی ہوجائے ۔ اسی لیے ان کے جنرلوں نے ایسے افعال کا ارتکاب کیا جو ان کی گوشہ نشینی کا باعث بنے ۔ وہ سب کچھ جو جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور جان ایلن کے استعفی کا باعث بنے وہ سب افعال ان کے قصدا اور اختیاری افعال تھے ۔ حالیہ سیاہ فام جنرل جسے امریکی حکومت نے افغانستان میں اپنی فوج کے کمان کے لیے نظر میں رکھا ہے اس کا تعلق سیاہ فاموں سے ہے۔ اس طرح افغان جنگ کے حوالے سے جو کچھ ناگوار صورتحال امریکا کو پیش آئے گی اس کے ذمہ دار دوسرے طبقے کے لوگ یعنی سیا ہ فام ہوں گے ۔اب مزید تو شکست مقدر ہوچکی ہے امریکا چاہے یا نہ چاہے حالات اس کے حق میں نفع بخش نہیں ہوں گے ۔