صوبہ فراہ کی صورتحال پر جہادی مسئول مولانا امین اللہ صاحبزادہ سے گفتگو

فراہ سے جارحیت پسندوں کے نکلنے سے مجاہدین کا رسوخ اور بھی بڑھ گیا ہے انٹرویو: ابوعابد صوبہ فراہ صوبہ فراہ افغانستان کے مغرب میں واقع ہے ۔ اس کے مغرب میں پڑوسی ملک ایران ، شمال میں ہرات ، جنوب میں نیمروز اور مشرق میں صوبہ ہلمند اور غور کے مضافاتی علاقے واقع ہیں […]

فراہ سے جارحیت پسندوں کے نکلنے سے مجاہدین کا رسوخ اور بھی بڑھ گیا ہے

انٹرویو: ابوعابد

صوبہ فراہ

صوبہ فراہ افغانستان کے مغرب میں واقع ہے ۔ اس کے مغرب میں پڑوسی ملک ایران ، شمال میں ہرات ، جنوب میں نیمروز اور مشرق میں صوبہ ہلمند اور غور کے مضافاتی علاقے واقع ہیں ۔ اس صوبے کے اکثر علاقے ریتلے صحراء ہیں ۔ آبادی والے علاقے بہت کم ہیں ۔ حالیہ گنتی کے مطابق اس صوبے کی آبادی 458500افراد پر مشتمل ہے ۔انسانی آبادی کی یہ تعداد 48471مربع کلومیٹر رقبے کی زمین کے مقابلے میں انتہائی کم بتائی جاتی ہے  صوبے کے مرکزی شہر ، شہرفراہ کے علاوہ 10اضلاع ہیں ۔ جن کے نام درج ذیل ہیں ۔

بالا بلوک ، گلستان ، پشت رود ، بکوانا، اناردرہ ، پرچمن ، خاک سفید، قلعہ کاہ ، لاش وجوین ، شیب کوہ ، فراہ رود

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جہادی مسئول کا تعارف:

صاحبزادہ مولانا امین اللہ کا تعلق صوبہ قندہار ضلع سپین بولدک سے ہے ۔ ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز انہوں اپنے گاؤں کی مسجد سے کیا ۔ ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد افغانستان کے مختلف مدارس اسی طرح پاکستان کے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں مختلف مدارس سے اکتساب علم کیا ۔

موقوف علیہ تک پڑھنے کے بعد  انہوں نے بقیہ زندگی جہاد کی خدمت میں گزاری ۔ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں تخار، بادغیس، بامیان اور غوربند کے محاذوں پر رہے ۔ وقتا فوقتا انتہائی اہم ذمہ داریاں بھی نبھائیں ۔ افغانستان پر امریکی یلغار کے بعد انہوں نے مسلح جہاد کا آغاز کیا ۔ وہ گذشتہ نو سالوں میں بولدک کے عمومی مسئول ، شوراوک کے عمومی مسئول اسی طرح صوبہ قندہار کے عمومی مسئول رہے اور مقدس جہاد کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔ گذشتہ چندسالوں کے بعد صوبہ فراہ کے عمومی جہادی مسئول کی حیثیت سے ان کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تاحال اسی عہدے پر جہادی خدمت میں مصروف ہیں

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سوال :

سب سے پہلے صوبہ فراہ میں ہونے والی حالیہ تبدیلی پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں؟

جواب:

صوبہ فراہ میں گذشتہ سال اور حالیہ مہینوں میں جہاد کی برکت سے بہت سی اہم تبدیلیاں سامنے آئی ہیں ۔ جن سے مجاہدین کامورال و حوصلہ بہت بلند ہوا ہے انہیں نقل وحرکت اور کارروائیوں میں انتہائی آسانیاں میسر ہوئی ہیں۔ دشمن نہایت شکست خوردہ حالت میں ہے ۔

سب سے اہم تبدیلی اس ملک سے خارجی فوجیوں کا انخلاء اور فرارہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پہلے اس صوبے کے مرکز اور تقریبا تمام اضلاع میں امریکی ، اطالوی اور ڈنمارک کی جارحیت پسند فوجیں وسیع پیمانے پر موجود تھیں ۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں انتہائی مضبوط بیس اور بنکر بنائے ہوئے تھے اور ہر وقت مجاہدین کے ساتھ جنگوں میں مصروف رہتے ۔ مگر گذشتہ سال کے دوران خارجی فوجی فراہ کے مرکز اور ضلع فراہ رود کے علاوہ تمام اضلاع سے مکمل طور پر نکل گئے ہیں ۔ اپنے پختہ بیس گراکر یا ویسے ہی چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔ ضلع فراہ رود اور مرکزی شہر میں بھی بس ایک ،ایک بیس کیمپ موجود ہے ۔ یہ بیس کیمپ مجاہدین کے حملوں سے دفاع کی سکت نہیں رکھتے ۔  ان شاء اللہ موسم بہار کے آغاز کے ساتھ نئے آپریشن میں امید ہے بقیہ بیس کیمپ بھی ختم ہوجائیں گے ۔ امریکیوں کے انخلاء سے فراہ میں بہت بڑی تبدیلیاں سامنے آئی ہیں ۔ تمام علاقے مکمل طورپر آزاد ہوگئے ہیں ۔ خاک سفید ، بالا بلوک، پشت رود ، فراہ رود، گلستان ، بکوا اور دیگر اضلاع کے مرکزی علاقوں کے علاوہ جہاں  چند سرکاری دفاتر دشمن کے قبضے میں ہیں باقی تمام علاقے مکمل طورپر خالی ہوگئے ہیں۔ مجاہدین ہر طرف آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ وہاں جارحیت کا کوئی اثر نہیں ہے ۔

سوال:

آپ نے مختلف علاقوں کی آزادی کی بات کی ۔ اس حوالے اگر کچھ تفصیلی معلومات دی جائیں کہ کن علاقوں سے کتنے خارجی جارحیت پسند نکلے ہیں اور کتنے علاقے فتح ہوئے ہیں ؟

جواب:

گذشتہ چند مہینوں میں ضلع بکوا سے خارجیوں کے تین اڈے ختم ہوگئے ہیں ۔ اور وہاں موجود سارے فوجی بھاگ گئے ہیں ۔ اسی طرح نیشنل آرمی کا بھی ایک اڈا ختم ہوا ہے ۔ ضلع بکوا میں اب صرف مرکز میں دشمن موجود ہے ۔ ہرات قندہار شاہراہ جو اس ضلع سے ہوکر گذرتا ہے اب مجاہدین کی نگرانی میں ہے ۔ مجاہدین جب بھی چاہیں دشمن کے لیے اسے بند کرسکتے ہیں۔ اب دشمن کی فوجیں آسانی سے یہاں سے نہیں گذر سکتیں ۔ ضلع بالابلوک سے بھی خارجی اور ملکی فوج کے 2، 2 اڈے ختم ہوگئے ہیں ۔ اس ضلع میں بھی صرف مرکز اور بڑی شاہراہ پر چند چیک پوسٹیں باقی ہیں بقیہ سارے علاقے مکمل آزاد ہیں ۔

خاک سفید ، فراہ رود اور پشت رود کے اضلاع سے بھی مجموعی طورپر 4بیس ختم ہوگئے ہیں اور دشمن کا وجود سمٹ کر صرف مرکزی علاقوں تک آپہنچا ہے ۔ صرف فراہ رود میں ابھی ایک بیس قائم ہے ۔ ضلع گلستان بھی مکمل طورپر خالی ہوچکا ہے ، ملکی فوجی یہاں محاصرے میں ہیں ، انہیں راشن بھی فضائی راستوں سے پہنچایا جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ آئندہ موسم بہار میں یہ علاقے مکمل طورپر دشمن کے وجود سے پاک ہوجائیں گے ۔ فراہ کے مشرقی ضلع “پرچمن” کا کمشنر یہاں کا سابقہ جنگجو کمانڈر تھا جو یہاں کے عوام پر سخت مظالم ڈھاتا تھا ۔ حتی کہ امارت اسلامیہ کے سابقہ دور حکومت میں بھی یہ علاقہ فتح نہیں ہوسکا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے یہ ظالم کمانڈر مجاہدین کے ہاتھوں ہلاک ہوگیا ۔ اس کے قتل سے پرچمن میں بہت بڑی تبدیلیاں آگئیں ہیں  مجاہدین کی سرگرمیاں علانیہ طورپرہونے لگیں ۔ فراہ کے مغربی اضلاع جیسے اناردرہ ، قلعہ کاہ ، اور دیگر اضلاع جو ایران سے متصل سرحد پرواقع ہیں وہاں شروع سے امریکی موجود نہیں تھے ۔ اس لیے وہاں سے ہمیں کسی قسم کی تشویش نہیں تھی ۔

سوال :

افغانستان کے کچھ علاقوں میں امریکیوں نے بیس اس لیے تعمیر کروائے تھے کہ جب تک خود وہاں موجود ہیں اربکیوں اور محلی پولیس کے نام سے اپنی مزدور فوج پیداکرتے رہیں ۔ جو ان کے جانے کے بعد انہیں کا سپرد کیا ہوا کام کرتے رہیں ۔ فراہ میں کہیں  ایسا  تونہیں ہوا کہ امریکیوں کے نکلنے کے بعد داخلی فوجیوں یا اربکیوں نےان بیسز پر قبضہ کیا ہو ؟

جواب :

نہیں پورے صوبہ فراہ میں صرف صوبائی مرکز کے مضافات میں کچھ اربکی پیدا ہوئے ہیں ۔ دیگر اضلاع میں ایسی کوئی مشکل نہیں ہے ۔انہوں نے مذکورہ اضلاع میں گذشتہ چند سالوں میں بہت کوششیں کیں  کہ مزیدلوگوں کو اربکی بنائیں لیکن کامیاب نہ ہوسکے اس لئے کہ  یہاں کے عوام نے ان کے اس اقدام کی مخالفت کی اور کسی قسم کا تعاون نہیں کیا ۔ انہوں نے اس حوالے انتہائی تشدد سے بھی کام لیا ۔ یہاں تک کہ بالا بلوک کے علاقے شیوان میں ایک مرتبہ 70قبائلی عمائدین اور معمر افراد کو صرف اس لیے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا کہ انہوں نے اربکی سازی کے پروگرام میں امریکیوں سے تعاون نہیں کیا ۔دیگر علاقوں میں انہوں نے لوگوں کو سخت اذیتیں دیں مگر اس بات پر تیارنہ کرسکے کہ انہیں اسلحہ تھماکر مجاہدین سے لڑا دیں ۔ اس لیے وہ مایوس ہوگئے ۔ فراہ میں محض بالابلوک کے ایک علاقے میں انہوں نے کچھ اربکی پیدا کیے ۔ مگر امریکیوں کے جانے کے بعد وہ سب مجاہدین سے آکر مل گئے ۔ درجنوں میں ہلکا اور بھاری اسلحہ  ایک ٹینک ، اور چند رینجر گاڑیاں بھی مجاہدین کے حوالے کردیئے  ۔ فراہ کے دیگرعلاقوں میں بھی دشمن کے انخلاء سے دشمن کے افراد تیزی سے مجاہدین کے ساتھ مل رہے ہیں ۔مجموعی طورپر 100 سے زیادہ افراد دعوت وارشاد پروگرام کے تحت گذشتہ چند مہینوں میں فراہ میں دشمن کی صفوں سے نکل کر مجاہدین سے مل گئے ہیں ۔ فراہ میں جن علاقوں سے دشمن کے فوجی نکلتے رہے وہ علاقے مجاہدین کے ہاتھ آتے رہے الحمد للہ مرکز کے علاوہ کسی بھی علاقے میں اربکیوں کا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آیا۔

{یاد رہے اربکی وہ کرائے کے فوجی ہوتے ہیں جو افغان عوام ہی میں سے لیے جاتے ہیں مگر ان کی براہ راست نگرانی امریکی فوج کرتی ہے ۔ سہولیات ،اسلحہ اور تنخواہیں اور مراعات وغیرہ  امریکی فوج کی جانب سے انہیں دی جاتی ہیں،ادارہ}

سوال :

2012میں جہادی کارروائیاں کیسی تھیں اور آئندہ  کے لیے آپ  کے توقعات کیا ہیں ؟۔

جواب:

گذشتہ 2012سال میں صوبہ فراہ میں جہادی کارروائیاں ہماری توقعات سے زیادہ اچھی تھیں ۔ یہ سال بڑی فتوحات کا سال تھا ۔ اس سے پہلے یہاں کے عوام اور مجاہدین کو بڑے بڑے مسائل کا سامنا تھا ۔ اس لیے امریکی اور دیگر غاصبوں کی کارروائیاں زیادہ تھیں ۔ مگر 2012میں امریکی بھاگنا شروع ہوگئے ۔ فراہ سے ان کے بہت سے کیمپ ختم ہوگئے ۔ اب صوبہ فراہ کے مجاہدین اور عام لوگ گذشتہ سالوں کی بہ نسبت اچھی حالت میں ہیں ۔ اکثر علاقے آزاد ہوگئے ۔ اور عوام سے جارحیت کا سایہ اٹھنے لگا ۔ چھاپے ، تشدد ، بمباریاں ، تلاشیاں اور خارجیوں کے مظالم اکثر علاقوں میں ختم ہوگئے ۔ مجاہدین کے حوصلے پہلے کی بہ نسبت بہت بلند ہیں ۔ اب پھر سے آئندہ سال کی تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ اس کے مقابلے میں دشمن ماضی کی بہ نسبت سب سےزیادہ بری حالت میں ہے ۔ جنگ اور مقابلے ہمت وہ ہارچکے ہیں اور صرف اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں ۔ دشمن کے افراد پے درپے ہتھیار ڈال رہے ہیں ۔ دشمن اپنے مراکز میں محصور ہے ۔ گذشتہ سال بھی ہماری کارروائیاں بہت اچھی تھیں ، دشمن کے نقصانات زیادہ اور ہمارے نقصانات انتہائی کم تھے ۔ پورے سال میں کوئی قابل ذکر نقصانات نہیں ہوئے ۔ آئندہ کے متعلق بھی ہم اللہ تعالی سے امید رکھتے ہیں کہ آئندہ سال بھی فتوحات اور کامیابیوں کا سال ہوگا ۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی اللہ کی نصرت سے ایسی فتوحات مجاہدین کو ملیں گی جو ان کی امیدوں سے بھی بڑھ کر ہوں گی ۔ ان شاء اللہ ۔

سوال :

آپ نے کہا تھا کہ صوبہ فراہ کے اکثر علاقے آزاد ہوگئے ہیں۔ تو ان علاقوں سے دشمن کے فرار کے بعد کون سا حکومتی نظام سامنے آیا ہے ؟

جواب :

آپ جانتے ہیں کہ امارت اسلامیہ ایک مکمل حکومتی نظم ونسق کا نام ہے ۔ جو عسکری ونگ کی طرح دیگر تشکیلات  قضاء ، تعلیم اور تربیت ، دعوت وارشاد اور نگران کمیشنز بھی رکھتا ہے ۔ فراہ میں بھی تمام علاقوں میں ہماری مذکورہ تشکیلات موجود ہیں ۔

اس کے علاوہ اکثر علاقوں میں علاقے کے لوگوں کی مرضی سے قومی عمائدین اور علماء کی شورائی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جو علاقائی سطح پر مسائل اور جھگڑوں کے فیصلے کرتی ہیں ۔ مجاہدین کو بھی اچھے اچھے مشورے دیتے ہیں ۔اور باہمی افہام وتفہیم سے تمام معاملات آگے بڑھاتے ہیں ۔ عوام کے ساتھ اس قریبی افہام وتفہیم کی بدولت ہی ہم لوگوں کی خوشحال اور پرامن زندگی کے لیے حالات ٹھیک کرسکتے ہیں ۔ صوبہ فراہ کٹھ پتلی حکومت کے دور میں چوری، ڈاکہ زانی ، لوٹ مار، اغواء برائے تاوان اور دیگر جرائم کا علاقہ سمجھا جاتا تھا ۔ اب مجاہدین کے دورحکومت میں لوگ مکمل امن وامان کے ساتھ زندگی گزاررہے ہیں ۔ چوروں کا مکمل طورپر خاتمہ ہوگیا ۔ اور جن علاقوں میں پیدا ہوگئے تھے بہت جلد عوام کے تعاون سے مجاہدین نے انہیں گرفتار کیا اور انہیں سزادی گئی ۔ اب بھی صرف فراہ کا مرکز اور اس کے ساتھ ملحقہ علاقے ہیں جہاں سے ہردن چوریوں اور دیگر جرائم کی رپورٹیں ملتی رہتی ہیں ۔ اسی علاقے میں اربکیوں اور پولیس کی حکومت ہے جس سے عوام کی زندگی انتہائی مشکلات کا شکار ہوگئی ہے ۔ صوبہ فراہ کا سیکیورٹی سربراہ صمد خان نامی سابقہ کمیونسٹ آدمی ہے جو ہماری معلومات کے مطابق اغواء اور چوریوں کا اپنا خصوصی نیٹ ورک رکھتا ہے ۔ جو ہرات اور فراہ کے مرکزی شہروں میں بڑے تاجروں اور صاحب ثروت افراد کے بیٹوں کو اغواء کرتا ہے اور تاوان کے بدلے رہا کردیتا ہے ۔ لیکن ان کی یہ کارروائیاں ان علاقوں میں جاری ہیں جو حکومت کے زیر اقتدار ہیں ۔ مجاہدین کے علاقوں میں وہ کسی قسم کی چوری اوراغواء کاری نہیں کر سکتے ۔

سوال :

چند ماہ قبل ایسا کہا جارہا تھا کہ امریکیوں نے بالا بلوک کے ضلع میں عام لوگوں کی کھیتیوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچایا تھا ۔ اس حوالے سے معلومات دی جائیں ؟

جواب :

کیوں نہیں ، ضلع بالابلوک کا علاقہ شیوان شاہراہ کے کنارے واقع ہے ۔ مجاہدین کے نفوذ کا ایک اہم علاقہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس علاقے میں دشمن کی کانوائے پر ہمیشہ مجاہدین کے حملے ہوتے ہیں ۔ انہیں باربار بھاری نقصانات اٹھانے پڑے ۔ امریکیوں اور داخلی فوجیوں کے لیے ہرات قندہار شاہراہ رسد کی فراہمی کی وجہ سے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔ دشمن اس علاقے میں مجاہدین کے حملوں سے بہت تنگ آگیا ۔ انہوں نے یہاں باربار آپریشن کیے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ بالآخر دشمن نے ایک ظالمانہ قدم اٹھایا اوراس سال فروری میں ایک آپریشن کا آغاز کیا جس میں شاہراہ کے قریب واقع لوگوں کے گھروں ، باغات اور کھیت وکلیان سب ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ بڑی تعداد میں ملکی وغیرملکی فوج، بلڈوزر اور دیگر چھوٹےبڑے وسائل کی مدد سے یہ آپریشن کیا گیا ۔ لوگوں کے بہت سے باغات ، کھیت اور صاف پانی کے نالے تباہ کردیئے گئے  ۔ دشمن چاہتا تھا یہاں بھی قندہار کے ضلع ژڑی اور پنجوائی کی طرح اپنی سیکیورٹی کے لیے عوامی تباہی کی جائے ۔ مگر بعد میں عوام اور مجاہدین کی جانب سے سخت مقابلے کا آغاز ہوا اور ان پر پے درپے کچھ کامیاب حملے ہوئے ۔ یہاں تک کہ دشمن پھر بھاگنے پر مجبور ہوا اور ان کے بنائے ہوئے منصوبے ادھورے رہ گئے ۔