مولوی احسان اللہ احسان شہید رحمہ اللہ

  مولوی احسان اللہ احسان شہید مولوی آغامحمد کے بیٹے اور مولوی میرزامحمد کے پوتے تھے ۔ 1381ہجری قمری سال کو صوبہ زابل کے وسطی علاقے میں سلیم کے گاؤں میں ایک مذہبی علمی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ مولوی احسان اللہ احسان شہید کے دادا کا شمار صوبہ قندہار کے مشہور جہادی اور علمی […]

 

مولوی احسان اللہ احسان شہید مولوی آغامحمد کے بیٹے اور مولوی میرزامحمد کے پوتے تھے ۔ 1381ہجری قمری سال کو صوبہ زابل کے وسطی علاقے میں سلیم کے گاؤں میں ایک مذہبی علمی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ مولوی احسان اللہ احسان شہید کے دادا کا شمار صوبہ قندہار کے مشہور جہادی اور علمی شخصیات میں ہوتا ہے ۔ موصوف نے انگریزوں کے خلاف افغانوں کی جنگ میں نمایاں حصہ لیا ۔ اسی لیے وہ قندہار اور سرحدی صوبہ سپین بولدک میں انگریزی تسلط کے خلاف جنگوں میں پیش پیش رہے ۔انہیں علاقوں میں سے کسی ایک علاقے میں وہ ایک جنگ میں زخمی ہوگئے ۔ جس کے باعث وہ ایک پاؤں سے ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہوگئے ، بعد میں افغانستان کے لوگوں میں یہی معذوری ان کی وجہءپہچان بن گئی ۔

تعلیم :

مولوی احسان اللہ احسان شہید بچپن ہی سے فطری طورپر ذہین وفطین واقع ہوئے تھے ، ان کی ذہانت کی وجہ سے ان کے والدنے بچپن ہی سے ان کے علم اور تربیت پر توجہ دی ہوئی تھی ۔ پہلے پہل ان کو گھر ہی میں ابتدائی تعلیم دینی شروع کردی ، بعد میں علوم شریعت کے حصول کے لیے دارالہجرت کے شرعی مراکز اور مدارس کی طرف انہیں بھیج دیا ۔ دارہجرت کے مختلف دینی مدارس میں انہوں نے انتہائی جانفشانی اور محنت سے اپنی پڑھائی جاری رکھی یہاں تک کہ ہجری قمری ؟ سال کو شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالواحد صاحب سے دورہ حدیث کی سند لے کر فارغ التحصیل ہوگئے ۔

جہادی زندگی :

مولوی احسان اللہ احسان شہید رحمہ اللہ ابھی اپنی تعلیمی زندگی کے ابتدائی مراحل میں تھے کہ افغانستان میں کمیونسٹوں نے ایک فوجی ڈکٹیٹر کے ذریعے عنان اقتدار سنبھالی ۔ کمیونسٹوں کے تسلط کے خلاف اسلام پسند افغانوں نے اسلامی جہاد کا آغاز کردیا ۔ اس مقدس جہاد میں افغانوں نے بے مثال غیرت اور بہادری کے ساتھ حصہ لیا۔ لیکن اس جہاد کی قیادت کی ذمہ داری بہر حال علماءکے کندھوں پر تھی ۔مولوی احسان اللہ شہید کا تعلق بھی چونکہ ایک علمی اور جہادی خاندان سے تھا جواپنے علاقے کی سطح پر ایک جہادی اور علمی خاندان کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، اس لیے انہوں نے روس کے خلاف جہاد کو دوسروں سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری سمجھا ۔

موصوف نے اسی دینی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے پہلی مرتبہ صوبہ زابل کے وسطی اضلاع میں مقیم شہیدرحمہ اللہ کے زیر قیادت غاصب روسیوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد وہ صوبہ ہلمند گئے ۔ وہاں بھی انہوں نے اس صوبے کے مختلف محاذوں پر کمیونسٹوں کے خلاف جہاد میں حصہ لیا ۔ ہلمند میں مختلف جہادی تیکنیکوں کا خوب تجربہ ہونے کے بعدوہاں سے صوبہ زابل آگئے جہاں انہوں نے ایک مضبوط اورفعال جہادی محاذ کی بنیاد رکھی ۔

یہ زابل کے وسطی ضلع” ارغسو غرہ “کا علاقہ تھا جہاں ان کے ساتھی مولوی عبدا لظاہر بھی ان کے ہمراہ تھے ۔مولوی احسان اللہ شہید اپنے تاسیس کردہ محاذ میں مجاہدین کی فوجی اور عسکری تربیت کے ساتھ دعوتی حلقے، فکری تربیت اور اسلامی ثقافت کے درسوں کا بھی اہتمام کرتے تھے ۔ وہ اپنے مجاہدین کی فوجی ٹریننگ کے ساتھ علمی اور فکری لحاظ سے الحاد اور بے دینی کے خلاف جہاد اور مزاحمت کی تربیت دے کر علم اور سمجھ کے ہتھیار سے انہیں مسلح کرتے ۔

تحریک طالبان کی تاسیس میں شہید احسان کا کردار:

مئی1994ءکو جب ملک میں امارت اسلامی کی قیادت کی جانب سے طالبان کے نام سے اسلامی تحریک کی ابتداءہوئی تو مولوی احسان اللہ شہید رحمہ اللہ ان ابتدائی لوگوں میں سے تھے جو پورے اخلاص کے ساتھ تحریک کے موسس کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوگئے اور اپنی انتھک محنت سے ان کا بھر پور ساتھ دیا ۔ تحریک کے اسی اوائل میں انہوں نے اپنے علاقے کے سارے کمانڈروں اور عام لوگوں کو ترغیب دے کر رضاکارانہ طورپر مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر راضی کردیا اور صرف ہتھیار ڈالنے نہیں بلکہ طالبان کی صفوں میں کھڑے ہوکر ایک خالص اسلامی حکومت کے قیام کے لیے قربانیاں دینے پر بھی راضی کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی احسان شہید کی ان حکیمانہ کوششوں کی برکت سے علاقے کے سارے لوگ اس بات پر تیار ہوگئے کہ وہ آکر تحریک سے مل جائیں ۔ اس عوامی حمایت کے نتیجے میں طالبان کے لیے یہ ممکن ہواکہ ضلع ڈنڈ سے ضلع سپین بولدک تک پہنچ جائیں اور سپین بولدک کا کنٹرول سنبھال لیں ۔

صوبہ قندہار پر طالبان کا کنٹرول مستحکم ہونے کے بعد امارت اسلامی کی قیادت کی جانب سے مولوی احسان شہید 1994ء11/05 کو زابل اور غزنی کے اضلاع کے جہادی کمانڈروں کی طرف مذاکرات کے لیے بھیجا گیا کہ وہ بھی آکر طالبان کی صفوں میں شامل ہوجائیں ۔ موصوف نے ان صوبوں کے علماءاور جہادی کمانڈروں کے ساتھ مسلسل ملاقاتوں اور مشوروں کے بعد انہیں اس بات پر تیار کرلیا کہ وہ طالبان کی صفوں سے آکر مل جائیں ۔ جنہوں نے صرف اور صرف الٰہی نظام کے نفاذ اور ملی خودمختاری وحاکمیت کے لیے اسلحہ اٹھا یا تھا اور بہت کم وقت میں ملک کا جنوب مغربی حصہ ان کے کنٹرول میں آگیا ۔

مرحوم احسان صاحب کو 26جنوری 1996کوغزنی پر طالبان کے قبضے کے بعد تحریک کی قیادت کے جانب سے ملک کے جنوبی صوبوں کے تصفیے کے لیے گردیز اور خوست کی جانب بھیجا گیا ۔ موصوف نے صوبہ پکتیا میں ایک اجتماع میں شرکت کی ۔ یہ اجتماع پکیتا میں طالبان کی آمد کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا ۔ اس اجتماع میں انہوں نے پکتیا اور سارے جنوبی صوبہ جات کے مسلمانوں اور وہاں کے باسیوں کو تحریک اسلامی طالبان کے اہداف اور اغراض انتہائی تفصیل سے بتائے ۔ اس کے بعد وہ ضلع خوست کی جانب گئے ، جہاں جنوبی صوبوں کے عمومی جہادی مسول مشہور جہادی ، علمی اور سیاسی شخصیت الحاج مولوی جلال الدین حقانی حفظہ اللہ کے زیر قیادت لڑنے والے مجاہدین کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا گیا ۔ وہاں بھی انہوں نے طالبان کے استقبال کے سلسلے میں منعقدہ اجتماع سے طالبان تحریک کے اہداف واغراض مفصل انداز میں بیان کئے ۔ اپنی تقریر میں انہوں نے خوست کے مجاہد عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک مقتدرہ متحدہ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تحریک طالبان کی پشت پر کھڑے ہوجائیں اور ان کی مدد کریں ۔

یہی وہ وقت تھا جب سارے مجاہداور غیورعوام اپنے مجاہد قائد الحاج جلال الدین حقانی کی رہنمائی میں طالبان تحریک کی صفوں میں شامل ہوگئے ۔ اور سارے مجاہدین علی الاعلان عملی طور پر طالبان کی حمایت کے لیے کھڑے ہوگئے ۔ جنوبی علاقوں میں پکتیا، پکتیکا اور خوست کے صوبے احسان شہید کی انتھک کوششوں اور علمی بیانات کے ذریعے طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعدانہیں تحریک کی قیادت کی جانب سے مغربی زون میں صوبہ ہرات کی طرف بھیجا گیا ۔ ہرات میں بھی انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ ہرات کے ان عوامی اجتماعات میں جو طالبان تحریک کی حمایت میں منعقد کیے جاتے ہیں ان میں شرکت کریں اور اپنے پرجوش اور عالمانہ بیانات سے ہرات کے علم دوست اور مجاہد صفت عوام میں سے تحریک کے ہم نوا پیدا کریں ۔

مولوی احسان شہیدرحمہ اللہ، اللہ کی عطاکردہ علمی استعداد کی بدولت ایسی فصاحت اور معقول استدلال کی قوت کے مالک تھے کہ انتہائی منطقی طریقے سے ہر کسی کو مطمئن کرسکتے تھے ۔ وہ دعوت کے بہترین اسلوب کے ذریعے انتہائی آسانی سے مخاطب کو اپنا موقف سننے پر راضی کرسکتے تھے ۔ اس دوران مولوی احسان اللہ شہید تحریک کی قیادت کی جانب سے صوبہ ہرات کے سرپرست گورنر کی حیثیت سے بھی ذمہ دار مقرر کیے گئے تھے ۔ لیکن وہ ہمیشہ جہاد پرور عوام کے عوامی اجتماعات میں علاقے کے ایک باسی شخص کی طرح شریک ہوتے اور اپنے لیے کوئی امتیاز پسند نہ فرماتے ۔

امارت اسلامی کی قیادت نے 1996/9/11ءکو جب ملک کے مشرقی علاقے کے تصفیے کے لیے طالبان کی جماعتیں ننگرہار ، کنڑاور لغمان کے صوبوں کی طرف بھیجیں اس وقت بھی مولوی احسان اللہ احسان صاحب کو ایک داعی ، صلح جو عالم ترجمان اور رہنما کی حیثیت سے وہاں بھیجا گیا ۔ احسان شہید رحمہ اللہ نے وہاں بھی اپنی ذمہ داری خوب نبھائی ۔ انہوں نے مشرقی زون کے مجاہد اور غیور لوگوں کو اپنے پر حکمت بیانات کے ذریعے طالبان تحریک کے اغراض ومقاصد سے آگاہ کیا اور انہیں طالبان کی حمایت پر آمادہ کیا ۔ صوبہ ننگرہار پر طالبان کے قبضے کے بعد وقتی طور پر مولوی احسان وہاں کے سرپرست گورنر کی حیثیت سے مقررکیے گئے ۔ مولوی احسان صاحب اس وقت تک وہاں رہے جب تک ملک کا دارالحکومت کابل طالبان کے دائرہ کنٹرول میں نہ آیا۔ کابل پرطالبان کے قبضے کے بعد قیادت کی جانب سے مولوی احسان شہید رحمہ اللہ کابل کے مرکزی بینک افغانستان بینک کے گورنر مقرر کیے گئے ۔

احسان شہید رحمہ اللہ کی جامع شخصیت اور ان کی علمی بصیرت:

مولوی احسان شہید رحمہ اللہ ایک متفوق عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع النظر سیاسی مفکر بھی تھے ۔ ان کے پاس امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لیے انتہائی مناسب اور قابل عمل منصوبے تھے ۔ ان کے ہاں عالمی امن کے قیام اور فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے مفسدین اور منکرین کے خلاف جہاد ہی موثر ذریعہ اور وسیلہ تھا ۔

وہ ہر کسی کووصیت کرتے کہ منکرین حق سے بہترین اسلوب اورحکیمانہ طریقے سے مجادلہ کرو ۔ تقوی اور روحانیت کو اسلامی دعوت اور مبارزت کی کامیابی کا اساس قراردیتے ۔ مجاہدین کے ایک معروف رہنما ابواللیث اللیبی رحمہ اللہ حضرت شہید رحمہ اللہ کو دوسرا سید قطب کہتے اور ہمیشہ ان کے پشتو اور فارسی خطبات اور بیانات انتہائی توجہ سے سنتے ۔

مولوی احسان اللہ شہید رحمہ اللہ کی شہادت

1998/5/24ءکو شمالی زون کے کچھ صوبے فاریاب ، جوزجان ، مزارشریف، سمنگان ، بغلان اور قندوز طالبان کے کنٹرول میں آگئے ۔ شہید مولوی احسان اللہ شہید رحمہ اللہ بھی ان طالبان کے ساتھ وہاں موجود تھے ۔ موصوف چاہتے تھے کہ شمالی علاقے بھی جنوبی ، جنوب مغربی اور مشرقی علاقوں کی طرح مصالحت اور امن کے ساتھ کنٹرول میں آجائیں تاکہ جنگ زدہ افغان عوام اب صلح اور بھائی چارے کی فضا میں ایک خوشگوارزندگی گذارسکیں ۔ لیکن ملک کی خودمختاری اور اسلامی اقتدار کے قیام کے دشمنوں کو یہ ہر گز منظور نہ تھا ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ افغان عوام ایک خالص اسلامی مرکزی حکومت کے سائے میں پرامن اور خوشحال زندگی کے مالک بن جائیں ۔

یہی وہ وقت تھا جب کمیونسٹ جنرلوں کے ذریعے افغانستان اور اسلام کے دشمن قوتوں نے ایک سازش تیارکی ۔ اسی سازش کے ذریعے انہوں نے شمالی علاقوں میں طالبان کے خلاف بغاوت شروع کردی ۔طالبان ان علاقوں کے لوگوں اور ان علاقوں سے ناواقف ہونے کی وجہ سے اس قابل نہ ہوسکے کہ بغاوت کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں اور فوری طورپر بغاوت کو فرو کردیں ۔اس عوام دشمن بغاوت میں جس کی قیادت ایک کمیونسٹ جنرل ، جنرل مالک کررہے تھے ہزاروں حریت پسنداور صلح جوطالبان مجاہدین شہید کیے گئے ۔امارت کی جانب سے زندہ بچ جانے والے مجاہدین کو پیچھے نکل جانے کا حکم ہوا۔ مولوی احسان شہید رحمہ اللہ اس وقت مزارشریف کے شہر میں موجود تھے ۔ امارت اسلامی کی جانب سے پیچھے نکل جانے کے حکم کے بعد انہوں نے مزارشریف سے دشت شادیان کے راستے نکل جانے کا ارادہ کیا ۔ جہاں بعد میں صوبہ بلخ کے مضافات میں ضلع چارکنت پہنچنے پر راستے میں مخالفین کے مورچہ بند حملے میں 1997/5/27ءکو شہید ہوگئے ۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔