میونخ شہر میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے شرکاء کو !

جرمنی کے شہر میونخ میں رواں ماہ 17  سے 19  فروری تک سیکورٹی کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد ہوگی۔  کہاجارہا ہے کہ اس کانفرنس میں  اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، دنیا کے مختلف ممالک کے صدور، خصوصی طور پر مغربی ممالک کے سربراہاں، خارجہ اور دفاع وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر اہم اشخاص شرکت […]

جرمنی کے شہر میونخ میں رواں ماہ 17  سے 19  فروری تک سیکورٹی کے حوالے سے ایک کانفرنس منعقد ہوگی۔  کہاجارہا ہے کہ اس کانفرنس میں  اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری، دنیا کے مختلف ممالک کے صدور، خصوصی طور پر مغربی ممالک کے سربراہاں، خارجہ اور دفاع وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور دیگر اہم اشخاص شرکت کرینگے۔ کانفرنس کا ایجنڈا یہ ہے کہ دنیا کے اہم مسائل پر بحث ہوگی اور اس کی راہ حل تلاش کی جائیگی۔

اگرچہ ایسی کانفرنسیں ماضی میں بھی دائر ہوئی تھیں، لیکن بدقسمتی سے دنیا کے مسائل حل ہونے کے بجائے وسیع اور مزید پیچیدہ ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس طرح کانفرنس کے شرکاء مسائل کے حل کے بجائے  نعروں اور اظہارات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ وہ مظلوم اقوام کو ان کے حقوق دینے کے بجائے مسائل کا حل بیدار اقوام کی سرکوبی اور محرومیت میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ آج ذرائع ابلاغ پر طاقتور قابض ہیں۔ مظلوم اقوام کو ہر نام سے یاد کرسکتے ہیں، لیکن حقائق تو دنیان کے بیدار اور باضمیر افراد دیکھ رہے ہیں، کہ کون مظلوم اور کون ظالم ہیں۔ صرف منفی پروپیگنڈوں سے وہ کیفیت اور حقیقت کو نہیں بدل سکتے۔

اسی وجہ سے ہم میونخ کانفرنس کے شرکاء کو  بتاتے ہیں، کہ دنیا کے موجودہ مسائل کے لیے حل ضروری ہے،کہ حالیہ دنیا خاص طور پر مغربی دنیا کے رہنماء اپنی سوچ اور موجودہ  حکمت عملی کے رخ کو موڑ دے۔ مسائل کے حقیقی حل کی جانب توجہ دیں۔

ہم کانفرنس کے شرکاء سے پوچھتے ہیں، کہ جب بھی دنیا میں خودمختار ممالک مقبوضہ ہوئے ہیں، وہاں کے مقامی باشندے اپنے ہی ملک میں پرامن اور آزاد زندگی سے محروم ہوئے ہیں، اپنے نظریے کے مطابق زندگی اور حکومت نہیں کرسکتی، دہشت گردی اورانتہاپسندی کے جھوٹے نام پر ملک کے خواتین، مردوں اور بچوں کے خون بہائے جارہے ہیں ۔کیا امن قائم ہوسکتی ہے؟ جہاں حق اور عدالت کے بجائے طاقت حاکم ہو، سب کچھ طاقت کے بل بوتے پر لاگو اور حل کرنے پر تلے ہوئے ہو، کون امن کا توقع کرسکتا ہے؟

اگر کوئی چاہے کہ دنیا میں امن قائم ہوجائے، تو  جارح ممالک مزید مقبوضہ ممالک کے باشندوں کو  خودمختاری سمیت تمام وہ جائز حقوق دیں، جنہیں غاصب اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔ دنیا سب کا مشترکہ گھر ہے۔ اسلحہ، پیسہ اور طاقت کے نشے میں مست عناصر کو   دستبردار ہونا چاہیے۔انسانی حقوق اور اقدار کے بڑے دعویداروں کو چا ہیے کہ  سب سے پہلے اپنے آپ پر انہیں لاگو کریں اور دیگران کے حقوق کے لیے بھی قائل ہوجائیں۔  مساوات کو اپنائیں، کیونکہ اس میں امن و سلامتی اور تحفظ لپٹا ہوا  ہے۔