وارسا سربراہی اجلاس ماضی کی غلطیوں کا  اعادہ نہ کریں

نیٹو سربراہی  اجلاس پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں  08 اور 09 جولائی کو منعقد ہوگا، جس میں دیگر مسائل کے ساتھ افغان مسئلہ پر بھی بحث ہوگا۔ کابل انتطامیہ کیساتھ نیٹو رکن ممالک فوجی اور مالی تعاون بحث کا ایجنڈا ہے۔ یہ کہ افغانستان سے متعلق نیٹو کی پہلی کانفرنس نہیں ہے۔ 2001ء سے جب […]

نیٹو سربراہی  اجلاس پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں  08 اور 09 جولائی کو منعقد ہوگا، جس میں دیگر مسائل کے ساتھ افغان مسئلہ پر بھی بحث ہوگا۔ کابل انتطامیہ کیساتھ نیٹو رکن ممالک فوجی اور مالی تعاون بحث کا ایجنڈا ہے۔

یہ کہ افغانستان سے متعلق نیٹو کی پہلی کانفرنس نہیں ہے۔ 2001ء سے جب امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کی ہے، اس کے بعد افغانستان کے بارے میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں نے مختلف کانفرنسیں منعقد کیں۔ پہلی بن کانفرنس تھی، جس نے جارحیت کے بعد افغانستان میں ایک کٹھ پتلی اور استعماری حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد بن کانفرنس سمیت افغانستان سے متعلقہ کانفرنسوں نے افغان مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ کرلی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے ساتھی کوشش کررہی ہے کہ افغان مسلمان عوام کو ان کے بنیادی اور جائز حقوق جو ملک کی آزادی اور اسلامی نطام کا قیام ہے، محروم رکھے۔ وہ (امریکہ اور متحدین) اس مسئلے کو اپنی مرضی سے زور اور زر کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے، اس بارے میں  ہمیشہ حقائق پر چشم پوشی کی ہے۔ اقوام کی جائز حقوق کے بارے میں عالمی قوانین کی روگردانی کی ہے اور افغانستان کی طویل تاریخ سے بھی عبرت حاصل نہیں کی ہے۔

قابل تعجب یہ ہے کہ اہل مغرب جو اپنے لیے خودمختار ملک اور اپنی عوام کے لیے ان کی مرضی کے مطابق نظام چاہتا ہے، وہ پھر دیگر اقوام کوان کی خودمختاری دینے کی کیوں قائل نہیں ہے؟ ایک دوسرے اس پر الزام لگاتے ہیں اور  طاقت کے پالیسی کی رو سے  اکیسویں صدی میں جو علم اور ترقی کی صدی ہے، خون بہانے اور دہشت کو اپنارہے ہیں۔ کیا آزادی کے جائز ہدف کے لیے مشروع جدوجہد دہشت گردی ہے؟ کیا اقوام کو یہ حق نہیں ہے کہ اپنے نظریے کے مطابق نظام قائم کریں؟

قابل غور ہے کہ یہ مسئلہ فوجی کانفرنسوں سے حل نہیں ہوتی اور نہ ہی ٹارگٹ کلنگ، بمباری اور رات کے چھاپے بیدار اور مؤمن اقوام کے حوصلے توڑ سکتے ہیں۔ امارت اسلامیہ سے مقابلہ ایک گروہ سے نہیں، بلکہ ایک ملت کیساتھ مقابلہ ہے۔ افغانوں کو  پیسے اور اسلحے سے کسی نے تابع نہیں کیا۔

نیٹو اور امریکہ کو طاقت اور  فریب کے حلقے سے نکلنا چاہیے  اور اپنی غلطیوں پر متوجہ ہوجائیں۔ اگر افغان مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے، تو طاقت اور جارحیت کی پالیسی سے ہٹ جائیں اور مسئلہ کے حقیقی حل کے لیے حقائق کا درک اور ہماری عوام کی جائز مطالبات  کو تسلیم کرلے۔