افغانستان کی جارحیت کے متعلق امریکہ ہی میں اختلافات

چند روز قبل عالمی قانون دان اور امریکی وکیل بروس فین نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک کالم لکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ ویتنام جنگ کی طرح جیتی نہیں جاسکتی اور سولہ برس گزرجانے کے باوجود امید کی کرن نظر نہیں آتی۔  اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کرپٹ، نااہل،بدعنوان، […]

چند روز قبل عالمی قانون دان اور امریکی وکیل بروس فین نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک کالم لکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ ویتنام جنگ کی طرح جیتی نہیں جاسکتی اور سولہ برس گزرجانے کے باوجود امید کی کرن نظر نہیں آتی۔  اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کرپٹ، نااہل،بدعنوان، قبائلی ،نفرت انگیز اور کٹھ پتلی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ افغانستان میں پوست کی کاشت وسیع پیمانے پر ہوا ہے اور گزشتہ الیکشن میں اعلی سطح پر دھاندلی ہوئی ہے۔

ان امریکی لکھاری کو یقین ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی انخلاء سے امریکہ کو  کوئی خطرہ متوجہ نہیں ہے۔ ہم ویتنام سے بھی نکلے، لیکن اس کے بعد ویتنام سے ہم پر کوئی حملہ نہیں ہوا ۔ ہم نے فلپائن کلارک ائیربیس اور بحیرہ سوبیک سے اپنی افواج کو نکالے، لیکن بعد میں ہمیں کسی خطرے کا سامنا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اگر  افغان جنگ کو ٹرمپ ختم کردے، تو انہیں امن نوبل انعام کا حقیقی حقدار ٹہرایا جائیگا۔ یہ اوباما کی طرح نہیں ہوگا، جنہوں نے 2009ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کرلیا، مگر درحقیقت انہوں نے امن کا مذاق اڑایا۔

حالیہ دنوں میں افغانستان میں امریکہ کی بےمعنی جنگ کے متعلق عالمی سطح پر لکھاریوں نے کالمے لکھے ہیں اور کہتے ہیں کہ افغان جنگ فوجیوں کی کثرت سے  جیتی نہیں جاتی، کیونکہ یہ تلخ اور ناکام تجربہ ہوچکا ہے۔ عالمی سطح پر بھی عوامی نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔

افغانستان ہی میں آئے روز جارحیت کے خلاف عوامی مزاحمت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر امریکہ اپنی جارحیت کو جو بھی رنگ دیتی ہے، افغان جانتے ہیں کہ ان کا ملک مقبوضہ ہے اور فیصلے واشنگٹن میں ہوتے رہتے ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے کی جنگ اور ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ اخراجات کے باوجود  جس کا امریکہ دعوہ کررہا ہے ، ملک میں جنگ کی مزید توسیع کی نشاندہی کرتا ہے، کہ بندوق کی نوک پر اقوام کو رام  کیے جاسکتے  اور نہ ہی ان کے جائز حقوق جو ملک کی آزادی اور اپنی مرضی کے عقیدے کا نظام ہے، ان سے طاقت کے بل بوتے ہتھیا جاسکتا ہے۔

اب عوام امریکی نعروں سے دھوکہ میں نہیں پڑتے، کیونکہ وہ مشاہدہ کررہا ہے کہ افغانستان میں عملی طور پر امیر و غریب کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوا ہے  اور روزانہ رات کے حملوں، اندھی بمباریوں اور عقوبت خانوں میں انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ ان تمام اعمال سے افغانستان اور دنیا میں وہ امریکی اعتبار اور حیثیت کو ختم ہورہا ہے، جس زمانے میں امریکہ اس کا لائق تھا۔

اگر امریکہ افغان مسئلے کا آبرومندانہ حل چاہتا ہے، تو افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکال دیں  اور ایک کرپٹ، بدعنوان، نااہل، نفرت انگیز اور کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنے سے اپنی عالمی اعتبار اور ساکھ کو مجروح نہ کریں۔ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے چھوڑ دیں ، تاکہ اپنے اسلامی اور قومی معاہدوں  پر اکھٹے ہوجائیں۔