افغانستان کے روراں جہادی مزاحمت کے متعلق امریکی جنرلوں کا غلط محاسبہ

افغانستان کے موجودہ جہادی مزاحمت کے بارے میں امریکی پالیسی ابتداء سے غیرسنجیدہ اندازے اور محاسبہ پر استوار ہے۔ گذشتہ دہائی سے زیادہ عرصے میں یہ محاسبہ کئی مرتبہ غلط ثابت ہوئی ہے،  لیکن امریکی جنرلز اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔ کچھ عرصہ قبل امریکی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف دانفورڈ نے کہا […]

افغانستان کے موجودہ جہادی مزاحمت کے بارے میں امریکی پالیسی ابتداء سے غیرسنجیدہ اندازے اور محاسبہ پر استوار ہے۔ گذشتہ دہائی سے زیادہ عرصے میں یہ محاسبہ کئی مرتبہ غلط ثابت ہوئی ہے،  لیکن امریکی جنرلز اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے۔

کچھ عرصہ قبل امریکی چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جوزف دانفورڈ نے کہا کہ اب طالبان کمزور پڑ چکے ہیں اور ان کے حملوں میں کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ افغانستان میں غاصب افواج کے کمانڈر جنرل جان نیکلسن ایک قدم آگے بڑھا اور کہا کہ طالبان کامیابی کے خط سے نکل چکے ہیں، مگر میڈیا میں ان کے اندازوں کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی، کہ بدخشان، بغلان، قندوز، ہلمند، پکتیا..اور… میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے وسیع علاقے اور ضلعی مراکز کا کنٹرول حاصل کرلیا اور مجاہدین کی پیش قدمی تاحال جاری ہے۔ دوسری جانب اگر ان کی بات درست ہے، تو پھر مزید 800 فوجی بھیجنے کی ضرورت کیا ہے؟

اسی طرح جب 2009ء میں امریکی جنرل میک کرسٹل کو افغانستان میں امریکی افواج کا کمانڈر مقرر کیا گيا، تو انہوں نے پشینگوئی کی، کہ افغانستان مزید تیس یا چالیس ہزار فوجیں بھیجی جائیں، تو طالبان کو ضرور شکست کا سامنا ہوگا۔ اسی اندازے کے بنیاد پر دسمبر 2009ء کو افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد ایک لاکھ کردی گئی ۔ یہ امریکہ اور دیگر متحدین افواج کی تعداد سے جو پچاس ہزار تھی، اس سے علاوہ تھا، مگر امریکی جنرل میک کرسٹل کی پشینگوئی کے برعکس امارت اسلامیہ کے مجاہدین کا روک تھام نہ کرسکے، بلکہ بذات خود جنرل میک کرسٹل اور وائٹ ہاؤس کے درمیان تنازعات پھوٹ پڑیں، حتی کہ بات میڈیا تک پہنچی اور آخرکار موصوف جنرل عہدے سے سبکدوش ہوا۔

معروف امریکی کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹروس جنہیں امریکی عہدیدار عراقی ہیرو سمجھاتا تھا، انہیں 2010ء میں امریکی کمانڈر چیف مقرر کیا گیا، جنہوں نے میڈیا کے سامنے آسمان سرپر اٹھایا اور کہا کہ عراق میں کامیاب تجربات کے بنیاد پر افغانستان میں رواں جہادی مزاحمت کو  کچل دیں گے۔ اسی سلسلے میں بےدریغ بمباری اور رات کے چھاپوں میں بےپناہ تیزی لائی ۔ ملیشا اور جنگجو فورس کی بھرتی عمل میں لایا۔ کثیرتعداد میں نہتے افغانوں کو گھروں کے صحن اور خاندانوں کے سامنے شہید کیے، لیکن شہری نقصانات کے علاوہ کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ان کے تمام پیشنگوئیاں اور تجزیات عملی طور پر صفر میں ضرب ہوئیں۔ پھر ایک ایسا وقت آیا کہ امریکی سینٹ کے فوجی خدمات کی کمیٹی نے افغانستان میں فوجی حالت کے بارے میں معلوم کے حصول کی خاطر انہیں طلب کیا، تاکہ ان کے گذشتہ اندازوں  کی رو سے ان سے پوچھ گچھ کریں، تو موصوف  سینٹر جان میکین کے سوالات کے دوران بےہوش ہوا اور اسی طریقے سے دیگر الجھن سوالات سے چھٹکارا حاصل کیا۔ یہ اور اس سے ملے جلے درجنوں مثالیں ہیں، جن سے افغانستان کے بارے میں  امریکی جنرلوں کے ناقص تجزیے اور محاسبے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو امریکی جنرل چاہتے ہیں کہ اس طرح غیر حقیقی تجزیات اور بیانات سے امریکہ اور دنیا کے عوام کو افغانستان کی حقیقی صورتحال سے بےخبر رکھیں، جنگ کو طول دیں اور اپنے امتیازات کے سلسلے کو جاری رکھیں اور یا امریکہ اور  افغانستان میں موجود استعماری ممالک سوچتے ہیں کہ وہ افغانستان میں صرف ایک گروہ سے لڑرہے ہیں اور اسے ختم کردینگے، لیکن اس حقیقت کو بھول  یا اسے نظرانداز کرچکا ہے، کہ  درحفیفت افغانستان کے عوام سے لڑرہے ہیں، جو اپنے عقیدے اور ملک سے دفاع کی خاطر میدان میں کھود پڑے ہیں اور  جدید ٹیکنالوجی کے سامنے ڈٹ چکے ہیں۔افغان عوام  پر جتنے مظالم ہوتے ہیں، اتنا ہی فولادی بن جاتے ہیں۔

امریکی حکمرانوں اور جنرلوں کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے خلاف ایک عوامی سیلاب جاری ہے اور ان کے اہداف اسلامی ، انسانی اور جائز ہیں۔اس مقدس سیلاب کو نام نہاد دہشت گردی سے ربط نہ دیا جائے  اور نہ ہی اس طرح کے غلط اندازوں اور محاسبوں سے اس کا سدباب کریگا۔ انہیں  افغان مسئلہ کے عملی حل پر فکر کرنا چاہیے، اگر ان کا مقصد صحیح معنوں میں جنگ کا خاتمہ ہو، تو اپنی افواج کے انخلاء کا معقول اور پرامن  طریقہ وضع کریں،ان کی بھلائی اور معقولیت ہم اسی میں سمجھتے ہیں۔