افغان مسئلہ کے متعلق امارت اسلامیہ کا اصولی مؤقف اور مغربی ذرائع ابلاغ

حالیہ دنوں میں مغربی اور مغرب نواز ذرائع ابلاغ نے چند بےبنیاد رپورٹیں شائع کیں، کہ گویا مملکت قطر کے دوحہ شہر میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے نمائندوں نے کابل انتظامیہ کے وفد سے افغان مسئلہ کے متعلق گفتگو کی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ کی حالیہ رپورٹیں ان ہی کی قیاس آرائیاں اور […]

حالیہ دنوں میں مغربی اور مغرب نواز ذرائع ابلاغ نے چند بےبنیاد رپورٹیں شائع کیں، کہ گویا مملکت قطر کے دوحہ شہر میں امارت اسلامیہ کے سیاسی دفتر کے نمائندوں نے کابل انتظامیہ کے وفد سے افغان مسئلہ کے متعلق گفتگو کی ہے۔ ان ذرائع ابلاغ کی حالیہ رپورٹیں ان ہی کی قیاس آرائیاں اور تجزیے ہیں ، جس کا کوئی حقیقت نہیں ہے۔اس طرح کی اکثر رپورٹیں مربوطہ ممالک کے خفیہ اداروں کی جانب سے معلوم الحال افراد کو نشر کے لیے دی جاتی ہیں اور ان کا ہدف  پروپیگنڈہ مقاصد کا حصول ہوتا ہے، یا میدان جنگ میں کابل حواس باختہ فوجیوں کا سدباب کرنا چاہتا ہے۔

سب کو معلوم ہے کہ حالیہ دنوں میں ملک بھر میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے مسلسل فتوحات حاصل کیں اور  پیش قدمی جاری ہے، تو امارت اسلامیہ کے دشمن اور مخالفین اس ڈوبنے والی فرد کی طرح جو  جھاگ اور جڑی بوٹی کا سہارا  لینے کی کوشش کرتی ہے اور بےبنیاد پروپیگنڈے کا رخ کیا ہوا ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ اس طرح مقطعی مؤقف اور اعمال افغان مسئلہ کے حقیقی حل کی منزل کو نہ صرف طول دیگی، بلکہ اسے مزید مغشوش کریگی۔

امارت اسلامیہ افغانستان عوام کے ہزاروں شہداء اور غازیوں کا مسکن اور ایک  باہدف قوت ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں نہایت بہادری اور شجاعت سے بہت سے نشیب و فراز میں کامیابی حاصل کی۔ امارت کا ہدف ابتداء سے ہی جارحیت کا خاتمہ،  مکمل ملکی خودمختاری کا حصول اور اسلامی نظام کا قیام ہے۔ ہمیشہ درج بالا  اہداف کی روشنی میں پرامن طریقے سے افغان مسئلہ کا حل چاہا اور چاہتی ہے۔

ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ افغان مسئلہ کے دو پہلو ہیں۔ بیرونی اور داخلی پہلو۔  بیرونی پہلو میں جارحیت کا خاتمہ مسئلہ کا حقیقی مشکل ہے۔ یہ مسئلہ اگر بات چیت کے ذریعے ہو اور یا فوجی طریقے سے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔اس کے  علاوہ افغان مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح گزشتہ چار عشروں سے  افغانستان کے مسلمان عوام ملک میں حقیقی اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ملک کے لاکھوں حقیقی فرزند اس راہ میں شہید، زخمی اور  اپاہج ہوچکے ہیں۔ یہ بھی سب پر واضح ہونا چاہیے کہ  افغان مسلمان عوام کی مرضی سے اسلامی نظام افغان عوام کا مسلم اسلامی اور انسانی حق ہے۔امارت اسلامیہ اقتدار کی جنگ نہیں لڑتی، بلکہ مقدس اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔

جیسا کہ امارت اسلامیہ کے موجودہ زعیم اور سابقہ معزز قائدین نے اپنے اپنے پیغامات میں فرمایا تھاکہ تمام افغانوں کو ملک کی خدمت اور حفاظت کا حق حاصل ہے۔تو  امارت اسلامیہ خودمختار افغانستان میں افغان شمول اسلامی نظام کا خواہاں ہے۔ اسے  انحصار کا  خیال نہیں ہے۔ مسئلہ کا حقیقی حل یہ ہے کہ  افغانی اسی اسلامی اور ملی  تہواروں پر اکھٹے ہوجائیں۔

اگر امارت اسلامیہ کے بیرونی اور داخلی دشمنوں کا خیال ہو، کہ بےبنیاد اور من گھڑت الزامات سے افغان مسئلہ کو حل کردیں، یہ ان کے سابقہ ناکام کوششوں کی طرح ایک اور ناکام کوشش ہوگی  اور واضح طور پر افغان عوام کے آنکھوں  میں  خاک پاشی ہوگی اور مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔