اقوام متحدہ کے ماہرین کی رپورٹ صرف بےبنیادہ دعوہ ہے

حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کے ماہرین  نے ایک رپورٹ میں کہا کہ افغانستان میں کابل انتظامیہ کے خلاف پینتالیس ہزار 45000 مجاہدین برسرپیکار ہیں، جن میں بیس سے پچیس فیصد تک غیر ملکی مجاہدین ہیں، مگر چند مغرب نواز ذرائع ابلاغ ایک قدم آگے جاچکی ہیں۔ بیس اور پچیس فیصد کے بجائے اعدادو شمار […]

حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کے ماہرین  نے ایک رپورٹ میں کہا کہ افغانستان میں کابل انتظامیہ کے خلاف پینتالیس ہزار 45000 مجاہدین برسرپیکار ہیں، جن میں بیس سے پچیس فیصد تک غیر ملکی مجاہدین ہیں، مگر چند مغرب نواز ذرائع ابلاغ ایک قدم آگے جاچکی ہیں۔ بیس اور پچیس فیصد کے بجائے اعدادو شمار بیس ہزار اور پچیس ہزار غیرملکی مجاہدین کی تحریر کی ہے۔ سب سے پہلے یہ کہنا ضروری ہےکہ یہ رپورٹ غلط معلومات اور سیاسی مقاصد کے بنیاد پر مرتب کی گئی ہے،جس کا کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کا ہدف یہ ہے کہ اس طرح سے چند مذموم سیاسی مقاصد حاصل کریں۔ ان میں سے ایک خطے اور دنیا میں خوف  پھیلانا ہے۔

سب کو معلوم ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی موجودگی کو ہوا دی جارہی ہے۔ ایسی رپورٹوں کے بنیاد پر استعمار چاہتا ہے کہ افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی موجودگی کو  جواز پیش کریں۔ افغانستان کے ہمسائیہ چین اور روس کو  خوفزدہ کریں ، یا ان پر دباؤ ڈال دیں۔ اسی طرح استعمار دنیا کو دکھانا چاہتا ہے، کہ افغانستان میں غیرملکی مجاہدین لڑ رہے ہیں، تاکہ وہ بیرونی جارحیت کے خلاف حالیہ اسلامی اور ملی مزاحمت کا حمایت نہ کریں اور ان سے ہمدردی کا اظہار نہ کریں، حتی کہ استعمار کے  مظالم وجرائم مثال کے طور پر سویلین کا قتل عام اور بمباری سے چشم پوشی کریں۔ ان دعوؤں سے استعمار کابل انتظامیہ کے حواس باختہ فوجیوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہے، کہ گویا تم افغانوں کے خلاف نہیں بلکہ بیرونی مجاہدین کے مقابلے میں لڑرہے ہو، مگر افغان عوام ہرچیز کا بچشم  مشاہدہ کر رہی ہے اور عوام سمجھتی ہے کہ حقائق ان دعاؤں کے برعکس ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ کو بیرونی فوجوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے خلاف جہادی مزاحمت کے لیے کسی  انسانی اور افرادی تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔ افغان عوام کی اکثریت امارت اسلامیہ کے حامی ہیں۔ ہمیشہ اسلامی فریضہ اور خودمختاری سے محبت کی خاطر امارت اسلامیہ کی جہادی صفوف میں شمولیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ امارت اسلامیہ صرف ضرورت کے بنیاد پر انہیں اپنی صفوف میں شامل کرتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے بار بار کہا ہے کہ امارت اسلامیہ ایک ملی اور اسلامی قوت ہے، جارحیت کے خاتمہ اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے جہادی جدوجہد کررہی ہے۔کسی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرتی ہے اور نہ ہی دیگران کو اجازت دیتی ہے کہ ہمارے داخلی امور میں مداخلت کریں۔ لیکن یہ یادآوری بھی ضروری ہے، کہ اس طرح بےبنیاد الزامات اور رپورٹیں افغان مسئلہ کو مزید پیچیدہ کرتی ہے۔ جان بوجھ کر مسئلہ کے حقیقی حل سے توجہ کسی اور جانب مبذول کرواتی ہے، تو استعمار اور اس کے بیرونی اور اندرونی حامیوں کو سمجھنا چاہیے کہ مزید یہ ناکارہ اور ناجائز  حربے افغان مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ ان کے ناکامی اور گھبراہٹ کو ظاہر کرتی ہے۔