امارت اسلامیہ کی عدالتیں عوامی امن اور اطمینان کا سبب ہے

امارت اسلامیہ افغانستان ایک جانب حالیہ جارحیت کے خلاف جہادی جدوجہدکررہی ہے اور کامیابیوں کو سمیٹ رہی ہے۔لیکن دوسری طرف مختلف النوع عوامی مقدمات کے حل کے لیے شرعی عدالتیں  قائم کی ہیں، خاص کر ان علاقوں میں جہاں امارت اسلامیہ کا کنٹرول حاصل ہے، تینوں عدالتیں مثال کے طور پر  ابتدائی عدالت،،استئناف عدالت اور […]

امارت اسلامیہ افغانستان ایک جانب حالیہ جارحیت کے خلاف جہادی جدوجہدکررہی ہے اور کامیابیوں کو سمیٹ رہی ہے۔لیکن دوسری طرف مختلف النوع عوامی مقدمات کے حل کے لیے شرعی عدالتیں  قائم کی ہیں، خاص کر ان علاقوں میں جہاں امارت اسلامیہ کا کنٹرول حاصل ہے، تینوں عدالتیں مثال کے طور پر  ابتدائی عدالت،،استئناف عدالت اور تمیز عدالت فعال ہیں۔ امارت اسلامیہ کے اس اقدام سے عوام خوش اور مطمئن ہیں، کیونکہ عوام مشاہدہ کررہے ہیں کہ ان کے مسائل جلد اور کرپشن کے بغیر  حل ہورہے ہیں۔

اب عوام اپنے مقدمات کابل انتظامیہ کی عدالتوں کے بجائے امارت اسلامیہ کی شرعی عدالتوں میں لے جاتے ہیں، حتی کہ کابل انتظامیہ کے زیرکنٹرول شہروں اور علاقوں سے  عوام امارت اسلامیہ کی عدالتوں کو رجوع کرتے ہیں۔ ایسی مثالیں بھی ہیں، کہ کابل شہر سے سرکاری ملازمین اپنے مقدمے امارت اسلامیہ کی عدالتوں میں لیجاکر انہیں حل کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کابل انتظامیہ کی عدالتوں میں جن کے پاس رقم اور سفارش نہ ہوں، ان کی صدائیں  سنائی جاسکتی ہیں اور نہ ہی ان کیساتھ انصاف ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سرکاری حکام کا مقصد صرف رقم بٹورنے کا ہے۔ دوسری جانب امارت اسلامیہ کے اراکین اس عمل کو جہاد کی نیت سے سرانجام دے رہا ہے۔ ان کا مقصد اللہ تعالی کے رضا   کا حصول ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ

اللہ تعالی کے ہاں لوگوں کا محبوب ترین وہ ہے، جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچائے اور اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ محبوب عمل یہ ہے کہ ایک مسلمان کے دل کو خوش کریں، یا ان کے  تشویش کو رفع کریں، یا ان کی جانب سے ان کا قرض ادا کریں، یا ان کے بھوک کو ختم کریں، یعنی کھانے کھلادیں اور رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ، کہ  میں کسی مسلمان بھائی کیساتھ ان کے حاجت پورا کرنے کی خاطر جاؤں یعنی ان سے تعاون کروں، اس کو اس سے بہتر سمجھتاہوں،کہ مسجد نبوی میں ایک ماہ اعتکاف کا عبادت کروں۔ رواہ الطبرانی

امارت اسلامیہ کے اراکین عوام ہی میں رہائش پذیر اور   ان تک رسائی آسان ہے۔یہ واضح ہیں، اگر یہ عدالتیں نہ ہوتیں،تو عوام کےدرمیان  کافی باہمی تنازعات ،خون بہانے اور دشمنی کے سبب بن جاتے۔ عوام میں خوف وہراس، ظلم وزیادتی کی فضا حاکم کی ہوتی۔ گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے پاس ایسے برے واقعات کے کافی نمونے ہیں۔اب بھی مشاہدہ کررہے ہیں، کہ بڑے بڑے شہروں میں دن دیہاڑے ڈکیتی اور بچے اغواء ہورہے ہیں، اور ان کے بدن کے اعضاء رقم کی ادائیگی  کے بدلے کاٹے جاتے ہیں اور یا انہیں قتل کیے جاتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں چند ایسی رپورٹیں ملکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئیں، کہ پولیس یونیفارم میں  جرائم ہورہے ہیں۔ اس عمل نے ہموطنوں کو شدید خوف و ہراس اور تشویش میں مبتلا کیا ہے۔ ایسی ثبوتیں بھی ہیں، کہ مذکورہ  گروہوں کا حمایت  خفیہ طور اعلی سرکاری حکام کرتے ہیں، اسی  لیے جرائم گھٹنے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ افغان مؤمن عوام کےکافی مسائل ہیں ۔ امارت اسلامیہ حالیہ جنگی حالت میں تمام کو ختم نہیں کرسکتے، لیکن کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں حالیہ جنگ کیساتھ ساتھ امارت اسلامیہ عوام میں امن و استحکام کا عامل ہے  اور عوام  مطمئن اور ان کے لیے پرسکون زندگی کی فضا قائم ہے۔ امارت اسلامیہ اس خدمت کو عوام کے تعاون اور حمایت سے اسی طرح جاری رکھے گی۔ ان شاءاللہ

ملک کی خودمختاری اور ایک حقیقی اسلامی نظام کی امید سے۔