امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن کے سربراہ کاانٹرویو

  ملاقات: ابوعابد افغانستان پرکفری طاغوتی قوتوں کی فوج کشی کے خلاف مسلح مزاحمت اورجہادمیں اگراستعماری قوتوں کے بے تحاشاجانی نقصانات کے حوالے سے اہم معرکہ قراردیاجاتاہے تووہاں اقتصادی لحاظ سے بھی یہ جنگ دنیاکے مستحکم اورکمزوراقتصادکی حامل قوتوں کے درمیان اہم نوعیت کی لڑائی قراردی جاسکتی ہے۔ امریکہ کی سربراہی میں مغربی قوتوں نے […]

 

ملاقات: ابوعابد

افغانستان پرکفری طاغوتی قوتوں کی فوج کشی کے خلاف مسلح مزاحمت اورجہادمیں اگراستعماری قوتوں کے بے تحاشاجانی نقصانات کے حوالے سے اہم معرکہ قراردیاجاتاہے تووہاں اقتصادی لحاظ سے بھی یہ جنگ دنیاکے مستحکم اورکمزوراقتصادکی حامل قوتوں کے درمیان اہم نوعیت کی لڑائی قراردی جاسکتی ہے۔

امریکہ کی سربراہی میں مغربی قوتوں نے ایک ایسے وقت میں کمزورملک افغانستان پرحملہ کیاجب وہ اقتصادی لحاظ سے بام عروج کوچھورہے تھے، بالخصوص امریکہ جس کااقتصادصدربل کلنٹن کی دورحکومت میں انتہائی مستحکم تھا،جارج بش بھی اسی مضبوط اقتصادی قوت کے بل بوتے پرمغرورہوکراسلامی دنیاپرچڑھائی کی حماقت کی۔

ظاہربات ہے کہ ایک ایسی لڑائی میں جس کے پیچھے مضبوط اقتصادی قوت ہو،مزاحمت کے لئے بھی بے تحاشااخراجات اورمالی قربانیوں کی ضرورت ہوگی،امارت اسلامیہ افغانستان اللہ تعالی کی مددسےگزشتہ بارہ برسوں سے دنیاکے بڑے اقتصادی قوتوں سے برسرپیکارہے،اس حوالے سے اگرایک جانب اسلامی امت نے بے دریغ جانی قربانیاں دی ہیں تودوسری جانب ان کی مالی قربانیاں اورجہادبھی تاریخی کارنامہ قراردیاجاسکتاہے،افغان مسلمان ملت اورپوری ملت اسلامیہ کی بے حدمالی قربانیوں کی بدولت دنیاکی مضبوط ترین اقتصادی قوتوں کی حامل طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں جاری جہادکوکامیابی ملی۔امارت اسلامیہ کے اقتصادی نظام سے آگاہی اورنظم وضبط جاننے کے لئے اس شمارے میں امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن کے سربراہ محترم ملاابواحمدسے انٹرویولیاہے جوقارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

سوال: سب سے پہلے آپ کوخوش آمدیدکہتاہوں،جناب امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن کے حوالے سے معلومات دیں اوراس کے طریقہ کارپرروشنی دالیں؟

جواب:

الحمدلله رب العلمین ، والصلوة  والسلام علی سیدالمرسلین محمد وعلی آله واصحابه  اجمعین وبعد :

سب سے پہلے آپ کاشکریہ اداکرتاہوں،آپ کے سوال کے جواب میں یہ کہناچاہتاہوں کہ اقتصادی امورکاکمیشن امارت اسلامیہ کے رسمی تشکیلات میں مالی اوراقتصادی امورکے حوالے سے باقاعدہ ذمہ دارکمیشن ہے جس کے ماتحت امارت کے تمام اقتصادی امورکانظام اورباقاعدہ نیٹ ورک قائم ہے۔اس کمیشن کے مرکزی ادارے کے علاوہ افغانستان کے تمام صوبوں میں نمائندے موجودہیں،اسی طرح مالی تعاون کی رقوم حاصل کرنے کے لئے ملک کے تمام صوبوں،ہمسایہ ممالک،عربی اوراسلامی دنیامیں ہمارے نمائندے موجودہیں،ان نمائندوں کے توسط سے امت مسلمہ کے تعاون کی رقم اقتصادی کمیشن تک پہنچتی ہے،کمیشن شفاف اورمنظم طریقے سے تعاون کی ان رقوم کوتمام جہادی ضرورتوں کے لئے استعمال اورخرچ کرتا ہے۔

سوال:مالی تعاون حاصل کرنے کے ذرائع اورطریقہ کارکیاہے؟اپنےملک یادنیاکے کسی حصے میں لوگ کس طرح امارت اسلامیہ کومالی تعاون پہنچاسکتے ہیں؟

جواب: جیساکہ میں نے ابتداء میں کہاکہ افغانستان،ہمسایہ ممالک،خلیجی ممالک اوردنیاکے دیگرممالک میں ہمارے نمائندے موجودہیں،جہاں بھی کوئی چاہے امارت اسلامیہ کے ساتھ مالی تعاون کرسکتاہے،اس سلسلےمیں وہ ہمارے مرکزی ایمیل ایڈرس ([email protected]پرہم سے رابطہ کرکے اعتمادحاصل کریں اورامدادی رقم ہمارے نمائندے کے حوالے کریں،اسی طرح افغانستان میں بھی ہمارے دوٹیلی فون نمبرز۰۰۹۳۷۷۲۷۸۴۳۷۶—–۰۰۹۳۷۹۸۰۹۸۸۱۳    فعال ہیں،اس ذریعے بھی ہمارے ساتھ رابطہ قائم کرسکتے ہیں اورتعاون کی رقم پہنچاسکتے ہیں۔

ایک بات واضح کرناچاہتاہوں کہ دشمن کی جانب سے کبھی بڑی سطح پریہ پروپیگنڈہ بھی کیاجاتاہے کہ مجاہدین کی رقوم کے انتقال کی راہ مسدودکردی گئی ہے اوراب وہ دنیاسے امدادحاصل نہیں کرسکتے اورنہ ہی کہیں امدادی رقم منتقل کرسکتے ہیں،سوکہناچاہتاہوں یہ صرف پروپیگنڈہ ہے،مجاہدین امدادی رقوم کے حصول اورانتقال کے لئے محفوط راستے استعمال کرتے ہیں کہ نہ امداددینے والوں کوکوئی خطرہ درپیش ہوتاہے اورنہ ہی امدادحاصل کرنے والوں کو۔

اس لئے دشمن کی نگرانی کاہمارے اوپرکوئی اثرنہیں پڑے گا،دنیاکے کسی کونے میں کوئی امارت اسلامیہ کے ساتھ تعاون کرناچاہیے تووہ ہم سے رابطہ کرکے محفوظ راستے سے ہم تک امدادپہنچاسکتے ہیں۔

سوال:آپ نے اقتصادی کمیشن کی تشکیل کی بات کی،اچھایہ بتائیں کہ اقتصادی کمیشن یہ رقوم کہاں اورکس طرح خرچ کرتاہے؟

جواب:مالی کمیشن جوامارت اسلامیہ کے تمام اقتصادی امورکانگران ادارہ ہے،کام اوراخراجات کادائرہ کاربہت وسیع ہے،مثلاامارت اسلامیہ کے انتطامیہ کمیشن جوافغانستان کے طول وعرض میں جہاد کی ضروریات کوپوراکرنے کے لئے اخراجات صرف کرتے ہیں۔

امارت اسلامیہ کے ملکی کمیشنزجن میں اطلاعات ونشریات کمیشن،تعلیم کمیشن،دعوت وارشادکمیشن اوردیگرمختلف ادارے شامل ہیں ان سب کے بھاری اخراجات ہوتے ہیں۔

صحت کمیشن جس کاکام جہادمیں زخمی ہونے والے مجاہدین  کاعلاج ومعالجہ ہے،بہت بڑی رقم ان پرخرچ کی جاتی ہے۔

اسی طرح یتیموں کی کفالت،زخمی مجاہدین کی طبی امداد،قیدوں کے ساتھ تعاون اوران کاعلاج ومعالجہ،معذوروں کے ساتھ مالی تعاون اوران کی کفالت اوردیگرشعبوں میں خرچ کیاجاتاہے۔

سوال: اقتصادی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے بتائیں کہ امارت اسلامیہ کے اقتصادکی بنیادکس چیزپرقائم ہے یعنی اتنے بھاری اخراجات کہاں سے پوراکرتے ہیں؟

جواب:

امارت اسلامیہ کے اقتصادکی بنیادافغان عوام اوربالعموم امت مسلمہ کے مالی تعاون پرقائم ہے،الحمدللہ امارت اسلامیہ طویل جدجہد اوراستقامت کے ساتھ جہادکی بدولت پوری اسلامی دنیامیں امت مسلمہ کے دلوں میں اپنامقام بنایاہے،نہ صرف افغانستان اورہمسایہ ممالک بلکہ عرب دنیاسمیت دیگراسلامی ممالک کے عوام جوکئی برسوں سے اسلام کے عادلانہ نظام کے نفاذکے پیاسے ہیں،شریعت محمدی کانفاذ،طاغوتی قوتوں کے خلاف مقدس جہاداوراسلامی نظام ان کی آرزوہیں،امارت اسلامیہ کے ساتھ عقیدت کی بنیادپراچھے تعلقات رکھتے ہیں،جی چاہتاہے کہ مزیدوضاحت کے لئےکچھ تفصیل بیان کروں،آپ نے سناہوگاکہ دشمن پروپیگنڈہ کرتاہے کہ امارت اسلامیہ کے ساتھ کچھ خاص ممالک اورادارے مالی تعاون کرتے ہیں اوراسی تعاون کی بناء پرمجاہدین نے جہادکوجاری رکھاہے،لیکن اگرہم اندازہ لگائیں توافغان جنگ نہایت زیادہ اخراجات سے لڑنے والی طویل جنگ ہے یہاں تک کہ خودامریکہ اخراجات صرف کرنے سے بے بس ہے،جبکہ دنیاکےدیگرممالک جن کی بنیادمستحکم اقتصادپرقائم تھی،کمزوراوربے بس ہوگئے،مگراللہ کاشکرہے کہ مجاہدین اقتصادی لحاظ سے کمزورنہیں بلکہ ماضی کے برعکس مستحکم ہیں،اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ امارت اسلامیہ کااقتصادکسی ایک ملک یاکسی خاص ادارے پرقائم نہیں بلکہ یہ دنیاکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مالی تعاون پرقائم ہے جونہایت خلوص نیت کے ساتھ مجاہدین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں حتی کہ منہ کانوالہ بھی آدھاکرکے مجاہدین کودیتے ہیں۔

افغانستان کے علاوہ دنیاکے دوسرے ممالک میں مالی جہاداورقربانیوں کی ایسی مثالیں موجودہیں کہ جس سے اسلام کے قرون اولیٰ کی یادتازہ ہوتی ہے،اب بھی مختلف اسلامی ممالک میں لوگ اپنے سرمایے کاایک بڑاحصہ جہادکےلئے وقف کرتے ہیں،خصوصامسلمان عورتوں کاکردارقابل صدستائش ہےجومالی جہادمیں اہم رول اداکرتی ہیں،یہاں پردومثالیں آپ کے سامنے رکھوں گاتاکہ آپ سمجھیں کہ مسلمان کتنے خلوص کے ساتھ مالی تعاون کرکے مالی جہادمیں حصہ لے رہے ہیں۔

ایک مسلمان بھائی جس کانام لینانہیں چاہتاہوں،نے اچانک مجاہدین کے ساتھ خطیررقم  کی صورت میں مالی تعاون کیا،جب ساتھیوں نے اتنی بڑی رقم کے تعاون کااستفسارکیاتواس نے بتایاکہ کسی نے مجاہدین کی ضروریات کی صورتحال سے آ گاہ کیا،میرے ساتھ بھی اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں ان کے ساتھ تعاون کرلیتاتومجاہدین کی ضروریات اورمیری بے بسی نے مجھ پربہت اثرکیااورمیرادل بہت دکھایا،میں اسی پریشانی کے عالم میں گھرلوٹا،اہلیہ کی نظریں مجھ پرپڑیں کہ میری طبیعت کیوں خراب ہے تومیں نے بتایاکہ مجاہدین اقتصادی لحاظ سے کمزورہیں اورشدیدمشکلات کاشکارہیں اسی لئے میری طبیعت خراب ہے،اسی وقت جب میری اہلیہ مجاہدین کی مشکلات سے اگاہ ہوئی تواس نے اپناہارجوسونے کاتھااوربہت عرصے سے محفوظ رکھاتھا،لاکرمجھے دیااورکہاکہ میں اس کواللہ تعالی کی راہ میں صدقہ کروں گی،اس کولے جائِیں اوربیچ کرپیسے مجاہدین کودیدیں تاکہ وہ اس سے اپنی ضرورتیں پوری کریں۔

ایک داستان کامیں خودگواہ ہوں ہم ایک علاقے میں چندسرمایہ دارلوگوں کے ساتھ بیٹھے  تھے،ان کے مالی تعاون کاذکرکررہے تھے،یہاں پرزمین کامالک کنواں کودرہاہے،ان کے مزدورکام میں مصروف ہیں،اسی وقت ایک بوڑھاشخص “جس کی دیہاڑی  دوہزارتھی” کنویں سے باہرنکلا،اس پرپسینہ آرہاتھااوربہت تھکاہواتھا،ہماری طرف آیاجب اسے پتہ چلاکہ اقتصادی کمیشن کے لوگ آئے ہیں مالی تعاون چاہتے ہیں تواس نے کنویں کے مالک سے کہاکہ میری دوہزاردیہاڑی اللہ کی راہ میں خرچ کرناچاہتاہوں اس لئے وہ مجاہدین کودیدیں جووہ جہادفی سبیل اللہ میں خرچ کریں گے۔

یہ تعاون جوہمارے مسلمان بہن بھائی نہایت خلوص کے ساتھ خفیہ اوراکیلااللہ تعالی کے دین کی سربلندی کے لئے کرتے ہیں،ان میں بہت برکت ہے،اللہ تعالی نے اس کے ذریعے امارت اسلامیہ کاجہادجاری رکھاہے،یہاں تک کہ دنیاکے مستحکم اقتصادکے حامل مغرورممالک کی معیشت زوال پذیرثابت ہوئی۔

سوال:بہت سے لوگ اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرناچاہتے ہیں لیکن بیشتراوقات وہ اس میں فکرمندرہتے ہیں کہ کہاں مال خرچ کریں مثلاغریبوں کے ساتھ تعاون کریں،مدارس اورمساجدکے ساتھ تعاون کریں یاکسی اورشعبے میں خرچ کریں لیکن جب وہ اس بارے میں علماء کرام سے رجوع کرتے ہیں تووہ انہیں کہتے ہیں کہ جہاں ضرورت زیادہ ہواوراجربھی زیادہ مرتب ہووہاں خرچ کریں،اس حوالے سے آپ کیاکہتے ہیں؟

جواب ۔ جی ہاں بلاشبہ آج مسلمان کئی مشکلات سے دوچارہیں اورتمام شعبوں میں مالی تعاون کی شدیدضرورت محسوس کی جاتی ہے،میرے خیال میں اہم یہ ہے کہ مالی تعاون وہاں خرچ کرناچاہیے جہاں مظلوم اوربے بس مسلمانوں کے مسائل حل اوران کی مشکلات دورہوجائیں۔

ہم جہاں پیسے خرچ کرتے ہیں وہ اللہ تعالی کی راہ میں لڑنے والے مخلص مجاہدین ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اللہ تعالی کی راہ میں وقف کررکھی ہے،دنیاکے بڑے ظالم،جابراورطاغوتی قوت کے خلاف برسرپیکارہیں،مقابل میں مستحکم اقتصادکی حامل باطل قوتیں ہیں،تاہم مجاہدین بڑے خلوص سے اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام رکھی ہے اوران کے آگے صداحق بلندکررہے ہیں۔اقتصادی لحاظ سے وہ بڑے مشکل حالات  میں جہادکررہے ہیں،آپ اندازہ لگائیں کہ مشین کی ایک گولی 30روپے کی ہے،راکٹ کاایک گولہ5000کاہے اورایک مشین گن 5لاکھ کی ہے توآپ خوداندازہ لگائیں کہ مجاہدین روزانہ جنگ میں کتنی گولیاں استعمال کریں گے اوران کی رقم کہاں سے آئیگی۔

اس کے علاوہ جہادمیں شہیدہونے والوں کے ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت امارت اسلامیہ کی ذمہ ہے،ایک ساتھی نے مختلف علاقوں سے یتیموں کی لسٹ بناکرکے امارت کودی ہے،ان یتیموں کے والدجوکسی دشمنی یاتنازعہ میں نہیں بلکہ اسلام کی راہ میں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں،ان کے یتیم بچوں اوربیواوں کے آمدنی کاکوئی ذریعہ نہیں ان کی کفالت امارت اسلامیہ کرتی ہے،اس کے علاوہ دشمن کی جیلوں میں قیدمجاہدین کے ساتھ بھی تعاون کرتے ہیں،ان کی رہائی پربھی اخراجات آتے ہیں،رہائی کے بعدان کے علاج کے اخراجات ہیں کیونکہ جیلوں میں ان کے ساتھ غیرانسانی سلوک اورتشددکے باعث وہ مختلف بیماریوں میں مبتلاہوجاتے ہیں،اسی طرح زخمیوں اورمعذوروں کے علاج ومعالجے کے اخراجات ہیں،اوروہ معذورمجاہدین جوکوئی کام نہیں کرسکتے ان کی کفالت بھی امارت اسلامیہ کرتی ہے،جبکہ بہت سے مہاجرمجاہدین جن کے آمدنی کاکوئی ذریعہ نہیں ان کے اخراجات بھی امارت برداشت کرتی ہے۔

آپ خودسوچیں کہ جن لوگوں کے ساتھ امارت تعاون کرتی ہے جن میں مجاہدین،زخمی،قیدی،مہاجرین،معذور،یتیم اوربیوائیں شامل ہیں کیایہ ہمارے معاشرے کے کمزور،محتاج اورحقدارنہیں؟انہوں نے صرف اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیاہے،سر،مال،اعضاء اوررشتہ داروں کی قربانی دی ہے تومیں سمجھتاہوں کہ ان لوگوں کاتمام مسلمانوں پرحق ہے کہ ان کے ساتھ مالی تعاون کریں،اوراگرمسلمان بھائی ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں تواللہ تعالی انہیں جہادمیں مکمل شرکت کااجردے گا۔

سوال :آخرمیں امارت اسلامیہ کے اقتصادی کمیشن  کے سربراہ کی حیثیت سے مسلمانوں کے نام کوئی پیغام ہوتوبتادیں؟

جواب : میراکوئی ذاتی پیغام نہیں لیکن چونکہ اقتصادی کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے ہزاروں مجاہدین،معذور،زخمی،قیدی،مہاجرین،یتیم،بیوائیں اورمحتاج لوگون کی کفالت میری ذمہ ہے اس لئے چاہتاہوں کہ امت مسلمہ کواللہ تعالی اوراس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغانات کی یاددہانی کرادوں جواللہ تعالی نے انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں کیاحکم دیاہے اوران حالات میں مسلمانوں کوکیاحکم دیاہے۔

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں کئی مرتبہ جہادبالمال کاذکرکیاہے اورمسلمانوں کاحکم دیاہے کہ جانی قربانی کی طرح مالی قربانی بھِ دیں حتی کہ بیشترآیات میں جہادبالمال کاذکرجہادبالنفس سے مقدم لایاہے،جیسے ارشادباری تعالی ہے(انْفِرُوا خِفَافاً وَثِقَالاً وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ) (التوبة:41 )  ،اللہ تعالی کی راہ میں نکلیں اورجہادکریں اپنے مال اورجان کے ساتھ۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ جہادبالمال کی تقدیم بالنفس پراس لئے ہے کہ مال کی قربانی بہت سے لوگوں کے لئے زیادہ مشکل ہے سوجوکام زیادہ بھاری ہواس کااجرزیادہ ہے،دوسری بات یہ ہے کہ اکثراوقات مال کومجاہدین کی زیادہ ضرورت پیش ہوتی ہے،مال کواحتیاج کی بناء پراللہ تعالی نے پہلے جہادبالمال کاحکم کیاہے،جیسے پہلے میں نے کہاکہ مجاہدین کومالی تعاون کی زیادہ ضرورت ہے،اورجومسلمان سرمایہ دارہیں ان پرلازم ہے کہ وہ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے مال اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔

جہادبالمال اورانفاق فی سبیل اللہ کے فضائل کے حوالے سے کثرت سے اتنی آیاتیں اوراحادیث موجودہیں کہ ان کاذکرکرنایہ یہاں ممکن نہیں،ارشادباری تعالی ہے،

یا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ* تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُون. .  الصف – ۱۰ – ۱۱ آیتونه

اے ایمان والو،کیامیں تمہیں وہ تجارت بتادوں جوتمہیں ہولناک عذاب سے بچائے،اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائیں اوراللہ کی راہ میں جہادکریں اپنے مال اورجان کے ساتھ،یہ تمہارے لئے خیرہے اگرسمجھتے ہو۔

اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے (مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (261)﴾ (البقرة

اسی طرح  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہادبالنفس اورجہادباللسان کی طرح جہادبالمال کاحکم بھی دیاہے،ایک حدیث حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے مجاہدین کوجہادکے اسباب مہیاکئے گواس نے خودجہادمیں شرکت کی۔

افغانستان پرطاغوتی قوتوں کاحملہ کسی دوملکوں کے درمیان لڑائی نہیں بلکہ یہ دوتہذیبوں کے درمیان جنگ ہے،استعماری قوتیں چاہتی ہیں کہ ایک اسلامی ملک پرقبضہ کرنے سے پوری اسلامی دنیاکے دل میں مورچہ بنائیں،اسی لئے یہ عقیدے کی جنگ ہے،ہرمسلمان پرمجاہدین کی حمایت اورتعاون لازم ہے،جس طرح دنیاکے کونے کونے سے کافرمال اکٹھاکرکے اس جنگ میں خرچ کرتے ہیں،جنگی اخراجات کی تکمیل کے لئے باقاعدہ طورپررچندہ کرتے ہیں،رقم جمع کرتے ہیں،پھراپنے فوجیوں اوران کے ایجنٹوں پرخرچ کرتے ہیں،مسلمانوں کوبھی احساس ہوناچاہیے،اپنے سرمایہ کاایک حصہ اللہ کی راہ “جہاد”میں خرچ کریں،تاکہ آپ بھی جہادمیں شریک ہو،وہ شخص جوجہادمیں کسی عذرکے بغیرشرکت نہ کریں تووہ منافق قراردیاگیاہے،کیونکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ من مات ولم یغزو  ولم یتحدث به نفسه مات علی شعبة من نفاق .

جوشخص اس حال میں مراکہ نہ اس نے جہادکیااورنہ اسے اس کااحساس تھاتووہ شخص ایک قسم حالت نفاق میں مرا۔

تومسلمان بھائیوں کواحساس ذمہ داری کی یاددہانی کراتے ہوئے امیدرکھتاہوں کہ وہ اپنے مجاہدین،قیدیوں،یتیموں اورمحتاج بھائیوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے رہیں گے۔ والسلام