امتِ مسلمہ کے علماء کرام سے ہماری اپیل

کابل میں نام نہاد امن کونسل نے کہا ہےکہ اسلامی ممالک کے علماء کی کانفرنس کے انعقاد کے لیے جدوجہد کررہی ہے ،ان کے مطابق  یہ کانفرنس افغانستان میں امن و امان کی بحالی اور مسلح مخالفین  کو قائل کرنے میں مؤثر کردار ادا کریگا، تاکہ جنگ سے دستبردار ہوجائيں۔ کابل انتظامیہ کے فریب پر […]

کابل میں نام نہاد امن کونسل نے کہا ہےکہ اسلامی ممالک کے علماء کی کانفرنس کے انعقاد کے لیے جدوجہد کررہی ہے ،ان کے مطابق  یہ کانفرنس افغانستان میں امن و امان کی بحالی اور مسلح مخالفین  کو قائل کرنے میں مؤثر کردار ادا کریگا، تاکہ جنگ سے دستبردار ہوجائيں۔

کابل انتظامیہ کے فریب پر مبنی یہ کوششیں  دراصل  جنرل پیٹریاس کے منصوبے سے سرچشمہ لیتی ہے، جو 2010ء اور 2011ء کو افغانستان میں امریکی اور نیٹو  افواج  کا جنرل کمانڈر تھا۔موصوف کا یقین تھا کہ معاشرے کے مختلف طبقات کے ذریعے پروپیگنڈہ کیا جائے اور مسلح مخالفوں کو قائل کیا جائے، کہ جاری جنگ جہاد نہیں ہے، بلکہ اقتدار کے حصول کی جنگ ہے ، تو موجودہ مزاحمت خودبخود ختم ہوجائیگی۔ اسی لیے انہوں نے افغانستان میں امریکی اڈوں میں ریڈیو اسٹیشن نصب کرکے دیہات اور بستیوں میں ریڈیو سیٹیں مفت تقسیم کی جاتیں اور بعد میں انہی ریڈیو اسٹیشنوں سے رواں جہاد اور مجاہدین کے خلاف شب و روز پروپیگنڈے کرتے  اور فتاوی صادر کرتے رہتے، مگر وقت گزرنے کیساتھ ساتھ الحمدللہ ان کی کوششیں ناکام ہوئیں۔

چونکہ اب افغانستان میں استعماری ممالک اور ان کے داخلی کٹھ پتلی ملک کے بیشتر علاقوں سے بیدخل  اور میدان جنگ میں عملی طور پر  حواس باختہ ہوچکے ہیں، تو اسی جعلی منصوبے سے چاہتا ہے کہ  علماء کرام کے طبقے کو جنہوں نے ہمیشہ راہ حق میں صدا بلند اور قربانی دی ہے، انہیں استعمار کے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کریں، مگر استعمار اور اس کے داخلی حامی یہ بھول چکے ہیں، کہ افغانستان اب ایک مقبوضہ ملک ہے۔ افغانستان کی  زمین اور فضا، فوجی اور سیاسی امور استعمار کے قبضے میں ہیں۔ اس جارحیت کے خلاف ڈیڑھ ہزار علماء کرام نے جہاد کا فتوی دیا ہے۔

امت مسلمہ کے علماء کرام یقیناہ افغانستان کے موجودہ حالت سے باخبر ہو  اور یا ہم امید کرتے ہیں، کہ خود کو آگاہ کریں۔ استعماری افواج یہاں شب و روز افغان مسلمان عوام پر فضائی بمباری اور رات کے حملے انجام دے رہیں۔ جس کے نتیجے میں روزانہ درجنوں مرد، خواتین اور بچے شہید ہورہے ہیں، لیکن استعمار سے کوئی (کیوں) کا پوچھ تک نہیں سکتا۔

ملک کی جیلیں عوام سے بھری ہوئی ہیں،جن کی تعداد پینتیس 35000 ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے بارہ ہزار 12000 وہ  قیدی ہیں،  جو طالب کے نام یا اس سے رابطے اور رشتہ داری کے بنیاد پر گرفتار ہوئے ہیں۔ ایسے قیدی بھی شامل ہیں،جن کی عمریں 90 برس ہیں۔ سالوں تک پوچھ گچھ کے بغیر جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ججوں کو رشوت دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ استعمار ملک میں اسلامی کلچر کے خاتمے کے لیے منظم کوششیں کررہی ہیں اور اخلاقی بے راہ روی  کو مکمل چھوٹ دی   ہے ۔ کابل انتظامیہ کے وزراء اور گورنر بیرونی ممالک کے شہریت کے حامل ہیں ، جو  امریکہ اور  دیگر استعماری ممالک  کے حکم پر منتخب ہوتے ہیں۔ یہ افغانستان کا موجودہ صورتحال ہے۔ جس کے خلاف افغان عوام اپنے ملک کی آزادی اور اسلامی عقیدے  کی دفاع کی خاطر اٹھ کھڑے  اور قربانی دے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے امت مسلمہ کے علماء کرام کو ہم احترامانہ طور پر بتاتے ہیں ، کہ افغانستان کی حالت بہت پیچیدہ ہے۔ یہاں استعماری ممالک  کی اینٹلے جنس اداروں کی جانب سے ہمیشہ خفیہ منصوبے بن رہے ہیں۔ انہیں افغانستان کی حقیقی حالت سے اپنے آپ کو باخبر رکھنا چاہیے، تاکہ خدانخواستہ ناآگاھانہ طور پر امریکی استعمار اور داخلی حامیوں کی سازشوں کا حصہ نہ بن جائیں اور یا اس الہی وعید کے زمرے میں نہ آجائے کہ :

وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ . سورة هود .(113)

یہ بھی قابل یاد آوری ہےکہ امارت اسلامیہ افغانستان نے پرامن طریقے سے جارحیت کے خاتمے اور ملکی خودمختار ی کے حصول  کے انتخاب کو  کھلا رکھا ہے، لیکن استعماری ممالک چاہتے ہیں ، کہ  پرفریب منصوبوں سے افغانستان کے حقیقی حل سے عالمی برادری اور ہموطنوں کی توجہ کسی اور جانب مبذول کروادیں۔