امریکا کے شعوری غلام

زخمی افغان میڈیا میں عبداللہ عبداللہ،ارغندیوال اور محقق سمیت متعدد کٹھ پتلی اعلیٰ حکام کی  وہ تصاویر میری نظر سے گزریں، جب انہوں نے امریکی سفارت خانے میں امریکا کی 240ویں یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ جہاں یہ گروہ  امریکی پرچم کے سامنے دست بستہ اور احتراماً  جھکا ہوا تھا۔ 1776ء سے […]

زخمی افغان

میڈیا میں عبداللہ عبداللہ،ارغندیوال اور محقق سمیت متعدد کٹھ پتلی اعلیٰ حکام کی  وہ تصاویر میری نظر سے گزریں، جب انہوں نے امریکی سفارت خانے میں امریکا کی 240ویں یوم آزادی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ جہاں یہ گروہ  امریکی پرچم کے سامنے دست بستہ اور احتراماً  جھکا ہوا تھا۔

1776ء سے پہلے برطانیہ اور اس  سے بھی کچھ قبل امریکا کے کچھ علاقوں پر اسپین کا قبضہ تھا۔ ہسپانوی اور برطانوی امریکا میں اس نعرے کے تحت داخل ہوئے تھے کہ اس خطے کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔ یہاں نئی اور متمدن دنیا آباد کریں گے۔ فصلیں،سڑکیں،تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز تعمیر کریں گے، تاکہ امریکی عوام پسماندہ زندگی کے بجائے ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم کے طور پر دنیا میں زندگی بسر کر سکیں۔ اِن اہداف کے تحت برطانوی جارحیت پسندوں نے امریکا میں قابلِ ذکر اقدامات کیے۔ امریکی عوام سمیت ان کا جغرافیائی نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا۔  یورپی زندگی کی سہولیات ان کے لیے مہیا کیں۔ امریکا کی بنجر زمین کے باسیو ں کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

ان تمام خدمات کے بدلے برطانیہ کا امریکی عوام سے صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ امریکی عوام سیاسی لحاظ سے اپنے ‘حق خود ارادیت’ سے دست بردار رہیں۔ وہ اپنے ملکی معاملات کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کے بجائے لندن کے فیصلوں پر ‘جی سر’ کہنے کے پابند ہوں گے۔ اپنے پرچم تلے زندگی گزارنے کے بجائے امریکی  پرچم کے سائے کواپنے لیے غنیمت تصور کریں گے۔ ملکہ برطانیہ کے تاج کو احترام کے طور پر سلام کہیں گے۔ برطانیہ کے استعماری فلسفے کاخلاصہ یہ تھا کہ وہ موجودہ استعماری قوتوں کی طرح  امریکی عوام کو    زندگی کی تمام سہولیات مہیا کریں گے، لیکن اس کے بدلے امریکا کو اپنی آزادی سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ان کی زندگی اُن بھیڑ بکریوں کی طرح ہوگی، جنہیں ایک چرواہا اچھی غذا کھلا کر فربہ کرتا ہے اور پھر جب دل چاہتاہے، ان کے گلے پر چھری پھیر دیتا ہے۔  اس وقت اُن کے بچ جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔

امریکی عوام نے برطانوی جارحیت پسندوں  کی اس شرط کو منظور نہیں کیا۔ مقامی امریکی باشندوں نے برطانوی جارحیت پسندوں کےخلاف ہتھیار اٹھا لیے۔ جنگ آزادی شروع ہو گئی اور ایک عشرے سے زیادہ انگریزوں سے لڑتے رہے۔ اس دوران  آزادی کی جنگ لڑنے والے عوام پر طرح طرح کے الزامات لگنا شروع ہوگئے۔ انہیں دہشت گرد، تخریب کار، ملک دشمن اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا، لیکن انہوں نے اپنی آزادی کی خاظر یہ تمام کڑوے گھونٹ پی لیے۔ بالآخر وہ ایک عشرے کی مسلسل  جدوجہد کے بعد تدریجا پورے امریکا کو انگریزوں سے آزاد کرانے میں کامیاب ہو گئے۔

امریکا ہر سال اپنی  اِسی آزادی کی یاد میں تقاریب کا انعقاد کرتا ہے، جہاں وہ اپنی آزادی کے لیے جان دینے والوں کو خراج  عقیدت پیش کرتا ہے۔ اپنے مخالف برطانیہ کی جارحیت کو ظالمانہ قرار دیتا ہے۔ اپنی جدوجہد کو جنگ آزدی کا نام اور اپنا بنیادی حق بتاتا ہے۔ کابل میں امریکی سفارت خانے میں  امریکا کی آزادی کی تقریب میں اشرف غنی کے  متعدد اعلیٰ شخصیات نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے اس تقریب میں امریکا کو آزادی کی مبارک باد دی۔ برطانیہ سے اپنی آزادی کے لیے جنگ کو اُن کا بنیادی حق  قرار دیا، لیکن دوسری جانب افغانستان پر امریکا کی جارحیت کو بھی سندِجواز فراہم کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی ترقی کے لیے امریکا کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں۔

اگر ہم اشرف غنی گروہ کے غلام حکام کے متضاد رویے پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ مغربی امداد پر پلنے والے یہ لوگ در اصل شعوری غلام ہیں۔ شعوری غلام اس لیے کہ وہ اپنی غلامی، محکومیت، اور غیروں کی جارحیت سمیت تمام ملک دشمن منصوبوں سے باخبر ہیں۔ انہیں  اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکا نے ہمارے ملک پر تمام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارحیت کی ہے۔   ہماری قوم کی آزادی سلب کی ہے۔ وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ غیرملکی جارحیت کے خلاف جہاد فرض عین ہے، لیکن یہ شعور رکھنے کے باوجود وہ اپنے آپ کو دھوکا دے کر امریکی جارحیت کو  بین الاقوامی امداد سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اشرف غنی اینڈ کمپنی کو امریکا  کا برطانیہ کے خلاف  اپنی آزادی کے لیے لڑنا ان کے  بنیادی حق  نظر آتا ہے۔ برطانیہ کی جارحیت کو ظلم قرار دیتے ہیں۔ امریکا کی جدوجہد کو قابل تعریف کارنامہ سمجھتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کابل کی کٹھ پتلیوں کو موجودہ افغانستان کی جارحیت  کی حقیقت بھی ا چھی طرح معلوم ہے، لیکن اس کے باوجود اپنے ضمیر کا گلا دبا کر رکھے ہوئے ہیں۔   قصداً اور شعوری طور پر غلامی کی  زنجیر اُتارنا پسند نہیں کرتے۔

مغربی ایجنٹ اور غلام ہونے کے باوجود دوسری اقوام کو آزادی کی مبارک باد دیتے ہیں۔ امریکا کی  تنخواہ پر امریکا کے اشاروں پر جارحیت کو جواز فراہم کر رہے ہیں۔ طُرفہ تماشا یہ کہ خود کو بھی ملکی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے ‘سپوتوں’ میں بھی شمار کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے وہ ان کرتوتوں سے باز  آجائیں۔ کیوں کہ اب تو امریکا بھی اس مضحکہ خیز مؤقف کا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ جو شخص اپنی تمام ضروریات،تنخواہ، گاڑی، اسلحہ اور سکیورٹی  تک کی بھیک امریکا  سے لینے کے لیے ان کے سامنے دست بستہ کھڑا ہوتا ہے، ہر کام میں  جان کیری کے حکم کا انتظار کرتا ہے، جس کے ملک کے تمام داخلی اور بیرونی سیاست دان اور نمائندے امریکا منتخب کرتا ہو، بھلا وہ کیسے اور کس منہ سے آزاد ہونے کا دعوی کر  سکتا ہے؟ مغرب کے شعوری غلام یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ آزادی اور خودمختاری محض بیانات اور تقاریر کا نام نہیں ہے۔ آزادی اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت  ہے، جو ہمیشہ بیش بہا قربانیو ں کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔

آزاد اور خودمختار اقوام اپنے ضمیر کا سودا کبھی نہیں کرتیں۔ وہ ہر چیز کو حقیقت کے آئینے میں دیکھتی ہیں۔ افغانوں نے ہمیشہ آزادی کے حصول  کے لیے بیش بہا قربانیا ں دی ہیں۔ بیرونی غاصبو ں کو ہمیشہ خاک چٹائی ہے۔ کبھی غلامی کی زندگی بسر نہیں کی، بلکہ ہمیشہ اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے، جب تک انہیں آزادی نصیب نہیں ہو جاتی تھی۔ اشرف غنی کو چاہیے کہ افغانستان کے غیور اور خودمختار عوام کو جھوٹے نعروں سے دھوکے  میں نہ ڈالیں۔ عوام جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی جڑیں کہاں ہیں اور ان کی آبیاری کہاں سے کی جاتی ہے؟ کیا موجودہ کابل ادارہ  امریکی سفارت خانے میں جان کیری کے دستخط سے وجود میں نہیں آیا؟ جب کسی ملک کے نظام کی تشکیلِ نو میں غیرملکی سفارت خانہ  پیش پیش ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ آزادی پر ڈاکا ڈالا جا چکا ہے۔ اب سفارت خانہ اس ڈاکے کو قانونی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

اب افغانستان کی آزادی کے لیے تمام لوگوں کو اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لانا پڑیں گی۔ جب کہ وہ لوگ آزاد کہلانے کےمستحق نہیں ہیں، جو  شعوری طور پر غلامی کی زنجیر گلے میں ڈال کر امریکا کی آزادی کےگیت گا رہے ہیں۔