امریکہ کی اور ایک ناکام پالیسی

صدر ٹرمپ نے  امریکی ریاست ورجینیا کے فورٹ مایر فوجی اڈے میں 21/ اگست کو افغانستان کے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کردیا۔  نئی امریکی انتظامیہ نے تقریبا چھ ماہ کی مدت گزارنے کے بعد نئی پالیسی مرتب کردی، مگر پھر بھی اس میں کافی تضاد موجود ہے۔ ایک جانب دعوہ کیاجارہا ہے کہ ہم […]

صدر ٹرمپ نے  امریکی ریاست ورجینیا کے فورٹ مایر فوجی اڈے میں 21/ اگست کو افغانستان کے متعلق اپنی پالیسی کا اعلان کردیا۔  نئی امریکی انتظامیہ نے تقریبا چھ ماہ کی مدت گزارنے کے بعد نئی پالیسی مرتب کردی، مگر پھر بھی اس میں کافی تضاد موجود ہے۔ ایک جانب دعوہ کیاجارہا ہے کہ ہم افغانوں کو یہ بتانا نہیں چاہتے کہ اپنی زندگی گزارنے اور  پیچیدہ معاشرے کو کس طرح سنبھال سکے، یہ مثبت نکتہ ہے۔ مگر دوسری طرف  عملی طور پر ماضی کی طرح استعمار کی موجودگی اور فوجی امور  استعمال کرنے پر اصرار کررہا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ گزشتہ 16 برس کے دوران قوت و دباؤ کی پالیسی نے کوئی نتیجہ نہیں دی۔  ایک زمانے میں امریکہ اور اس کے متحدین  کے افغانستان میں ایک لاکھ سے زائد فوجیں موجود تھیں۔ تمام حربوں اور اسلحہ کو ہماری مجاہد عوام کے خلاف آزمایا،  افغان مسئلہ کو حل کرسکا اور نہ ہی ہماری مسلمان عوام کی خودمختاری کے عزم کو شکست دے سکی۔  اگر امریکہ اسی طرح مزید دس پالیسیاں مرتب بھی کریں اور اصل تمرکز  طاقت کے استعمال پر ہو،تو  افغان مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جب تک افغان مسلمان عوام کے ان بنیادی مطالبات یعنی جارحیت کا خاتمہ، ملک کی خودمختاری اور اپنے عقائد کے مطابق نظام کے  قیام کو تسلیم نہیں کروگے۔ اس ہدف کے تحقق کے لیے امارت اسلامیہ نے ہمیشہ سیاسی راہ کو کھلی رکھی ہے اور فوجی جدوجہد کو  بھی جاری رکھا ہواہے ۔ اگر وہ اپنے قول میں سچے ہیں،  تو افغانوں کو چھوڑ دیں، کہ کس طرح چاہیے زندگی بسر اور حکومت قائم کریں۔

قابل یادآوری ہےکہ افغانستان میں نظام کے قیام کےلیے امریکی  منصوبے مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔  ابتداء میں امریکہ اظہارآزادی، ترقی اور سلامتی کے پرفریب نعرے لگاتے رہے، مگر عملی طور پر جمہوریت کے زیرسایہ جنگجوؤں کی ایک نفرت انگیز گروہ کو افغان عوام پر مسلط کی، جس کے نتیجے میں عوام کو مزید فقر، ظلم اور ناامنی سے روبرو کردیا۔ زراعت نے ترقی کی اور نہ ہی صنعت ، بلکہ چند معلوم الحال افراد ان کی موجودگی میں کرپشن اور غبن کے ذریعے ارب پتی بن گئے۔

ان سب کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے تمام نعروں میں ناکام ہوئی ہے۔ اب اسے چاہیے کہ افغانستان کی زمینی حقائق کو  مدنظر رکھے۔ افغانوں کے بنیادی مطالبے کو تسلیم کریں  اور تمام ان عوامل کے خاتمے کی کوشش کریں،جن کی وجہ افغان عوام گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے اپنی تمام قوت کیساتھ بیرونی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔نمائشی پالیسیوں سے افغان مسئلہ حل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی کامیابی آتی ہے۔ البتہ اگر افغان عوام اپنے جائز حقوق حاصل کریں،  دنیا اور ہمسائیہ کو تسلی دیتی ہے، کہ افغان سرزمین سے کسی کو خطرہ لاحق نہیں ہے، بلکہ اپنے اسلامی اور قومی مفادات اور متقابل احترام کی روشنی میں ان سے تعلقات استوار کیے جاتے ہیں۔