امریکی انخلا نے کابل حکومت کے حوصلے پست کردیئے ہیں

آج کی بات جس دن سے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا آغاز ہوا ہے، ان چہروں ، سیاست دانوں ، زرخرید دانشوروں، کالم نگاروں اور صحافیوں کے اوسان خطا ہوگئے ہیں اور شدید اضطراب کا شکار ہیں جنہوں بیس برس کے دوران امریکی ڈالر اور مراعات پر ناچتے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ […]

آج کی بات
جس دن سے افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا آغاز ہوا ہے، ان چہروں ، سیاست دانوں ، زرخرید دانشوروں، کالم نگاروں اور صحافیوں کے اوسان خطا ہوگئے ہیں اور شدید اضطراب کا شکار ہیں جنہوں بیس برس کے دوران امریکی ڈالر اور مراعات پر ناچتے تھے۔
انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کا آقا انہیں اتنا اچانک اور ان کی زہن سازی اور تیاری کئے بغیر تنہا چھوڑ دے گا۔
اب جب یہ غلام اور امریکی ڈالر سے مست لوگ باتیں اور تبصرے کرتے ہیں تو ان کی منہ سے یہ الفاظ اور جملے ضرور نکلتے ہیں کہ “موجودہ صورتحال ان کے لئے نہایت پریشان کن، حیران کن، ان کی سوچ اور سمجھ سے بالاتر ہے۔
ان کے بقول امریکہ سے سابقہ سوویت یونین بھی بہتر تھا جو اپنی کٹھ پتلی حکومت اور غلاموں کے ساتھ کسی حد تک وفادار رہے، سوویت یونین کے دروازے ان کے لئے کھلے رہے، ہتھیاروں ، طیاروں، توپخانے ، ٹینک اور گولہ بارود اور پانچ سال کی جنگ کے لئے تمام وسائل حکومت کے حوالے کردیئے گئے۔ جب کہ امریکیوں نے اپنے خیموں اور دیگر آہنی اور لکڑی کی چیزوں کو کابل حکومت کے سپرد نہیں کیا بلکہ انہیں کباڑ بنا کر بیچ دیا یا جلا دیا۔
واقعی امریکہ نے اپنے غلاموں اور پروجیکٹ نظام کو شدید پریشانیوں میں مبتلا چھوڑ دیا، یہاں تک کہ امریکہ اور یوروپ اب تک اپنے اہم غلاموں کے پاسپورٹ پر ویزا دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں، ان کے لئے ڈالر کی جو خطیر رقم آرہی تھی، ان کی بدقسمتی سے اب وہ دن بدن کم ہورہی ہے۔
دوسری طرف ہر روز بڑی تعداد میں اضلاع اور اہم اسٹریٹجک فوجی اڈے بغیر کسی لڑائی کے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے کنٹرول میں آرہے ہیں۔
لہذا کابل انتظامیہ کے سیاست دان ، فوجی اور سول حکام جو ہر وقت پسپائی، نقصان، سیاسی اور معاشی بحرانوں کی خبریں سنتے اور مشاہدہ کرتے ہیں، بلاشبہ ان کے پست حوصلے کے اثرات حواس باختگی اور باتوں کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔
افسوس سے بھرپور خیالات کا اظہار کرنا کابل حکومت کے کسی زخم کا مداوا نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان کے گرے ہوئے حوصلے بلند کرنے میں مدد گار ثاہت کو سکتا ہے۔
بہتر یہ ہے کہ ان کے ملازمین اور اہل کار اصل حقیقت کا ادراک کریں، جنگ کے بجائے افہام و تفہیم کے ذریعے اپنے مجاہدین کی صف میں شامل ہوجائیں، اپنے آپ کو، اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کو بچائیں۔
مجاہدین کے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں اور بھائیوں کی طرح ان کا استقبال کیا جائے گا۔