امریکی جرنیل اور حنیف اتمر

آج کی بات امریکہ میں متعدد تنظیموں کے اتحاد جن میں یونین آف ریٹائرڈ جرنیل اور سپاہی شامل ہیں، نے جو بائیڈن کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے مطابق مقررہ وقت پر افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائے۔ دوسری طرف امریکی حملہ آوروں کے افغان کٹھ پتلی حکام دن رات […]

آج کی بات

امریکہ میں متعدد تنظیموں کے اتحاد جن میں یونین آف ریٹائرڈ جرنیل اور سپاہی شامل ہیں، نے جو بائیڈن کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ دوحہ معاہدے کے مطابق مقررہ وقت پر افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائے۔
دوسری طرف امریکی حملہ آوروں کے افغان کٹھ پتلی حکام دن رات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، تاکہ حملہ آوروں کی موجودگی کو افغانستان میں برقرار رکھا جاسکے، افغانوں کا قتل عام کو جاری رکھا جاسکے لیکن انہیں ڈالر اور اقتدار سے محروم نہ کیا جائے۔
کابل حکومت کے وزیر خارجہ، کمیونسٹ حنیف اتمر نے بڑی بے شرمی سے جرمن سفیر کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے دوحہ معاہدے کے خلاف افغانستان میں اپنی فوج کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کیا۔
امریکی جرنیلوں نے بائیڈن کو خط لکھا: جناب صدر مملکت! ہم اس اتحاد کے تمام ممبران آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ جلد از جلد اپنی افواج معاہدے کے مطابق افغانستان سے واپس بلائیں۔
انہوں نے مزید کہا: “بدقسمتی سے ہماری افواج نے افغانستان میں اتنی طویل جنگ لڑی ہے کہ اب پہلے فوجیوں کے بچے جوان ہوگئے ہیں اور انہیں لڑنے کے لئے بھیجا جائے گا، ہم کب تک وہاں لڑتے رہیں گے۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی حملہ آوروں کو بھی اتنا احساس ہے کہ اس جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم غیر ضروری جنگ میں مصروف ہیں، وہ افغانوں پر مسلط کردہ جنگ کو غلط سمجھتے ہیں، وہ اس جنگ کو ناکام قرار دے رہے ہیں، اگرچہ انہوں نے دو دہائیوں کے دوران ہزاروں ہلاکتوں اور مالی نقصان کے علاوہ ہزاروں افغانوں کو شہید کر دیا گیا، لیکن آخر کار انہوں نے اپنی شکست کا احساس کیا، اگر وہ مستقبل میں یہاں اپنی فوج کو برقرار رکھیں گے تو انہیں یقین ہوگا کہ انہیں ذلت اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن ان کے کٹھ پتلی اتنے لاپرواہ ، بے ضمیر اور غیر سنجیدہ ہیں کہ انہیں حملہ آوروں کی موجودگی پر فخر ہے، ان کے ہاتھوں اپنے ہم وطنوں کی شہادت پر لطف اندوز ہوتے ہیں، اور ان کی غلامی پر کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔
ایک دن کے لئے بھی قابض افواج ہمارے ملک میں برقرار رہیں گی تو وہ ان کا شکریہ ادا کریں گے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قابض افواج کی موجودگی تمام بحرانوں اور مسائل کی جڑ ہے، افغانوں کے قتل عام اور تباہی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
لیکن کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ کے اعلی حکام جارحیت کو دوام بخشنے اور قابض افواج کی موجودگی کے لئے تمام ہتھکنڈے اور حربے استعمال کررہے ہیں۔
اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ جارحیت کی کھوکھ سے جنم لینے والے عناصر جارحیت کے تسلسل سے آکسیجن لے رہے ہیں، اگر جارحیت اور قابض افواج نہ ہو تو عوام ان غداروں کو پتھر ماریں گے، ان کی نسلیں بھی افغانستان کی مقدس سرزمین سے باہر کریں گے تاکہ آئندہ نسلوں میں ایسے غداران وطن، قومی خائنین اور اپنی مٹی اور ناموس سے کھیلنے والے عناصر پھر کبھی واپس نہ آئیں۔
کٹھ پتلی حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ مزید ایسے ناروا اقدامات سے گریز کریں، افغان عوام کے مستقبل سے کھلینے کی سازشیں بند کردیں، افغان عوام کی امنگوں، جو امن ، آزادی ، خودمختاری اور اسلامی نظام ہے، کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش نہ کریں۔
مستقبل قریب میں جارحیت کے خاتمے اور قابض افواج کے انخلا کے ساتھ کٹھ پتلی حکام مایوس ہوکر چلے جائیں گے۔ و ماذالک علی اللہ بعزیز