امریکی حکام اپنی عوام کو دھوکہ دے رہی ہے

حالیہ دنوں میں چند اعلی امریکی حکام نے افغانستان کی موجودہ حالت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے   اس ملک میں امریکی صدر کی جنگی پالیسی کو کامیاب سمجھی۔ امریکی وزیر دفاع جمیز میٹس، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ڈنفورڈ اور وزرات خارجہ کے نامزد مایک پومپیو  نے امریکی کانگریس کے مختلف  اجلاسوں سے گفتگو […]

حالیہ دنوں میں چند اعلی امریکی حکام نے افغانستان کی موجودہ حالت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے   اس ملک میں امریکی صدر کی جنگی پالیسی کو کامیاب سمجھی۔

امریکی وزیر دفاع جمیز میٹس، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ڈنفورڈ اور وزرات خارجہ کے نامزد مایک پومپیو  نے امریکی کانگریس کے مختلف  اجلاسوں سے گفتگو کے دوران افغانستان کے بارے میں کہا کہ  ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان شدہ پالیسی کامیابی سے جاری ہے،  جنگ میں قابل ذکر پیشرفت ہوئی اور اسی پالیسی کی وجہ سے جنگی بحرانی حالت اب پرامن فضا میں بدل چکا ہے۔

ہم نہیں جانتے کہ یہ امریکی جنرل اور اعلی حکام افغانستان میں اپنی کونسی فوجی کامیابی کا تذکرہ کررہاہے،  جو اس طرح شدومد سے اس کی داستان سنارہا ہے؟ امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کے لیے اپنی پالیسی کا اعلان اگست 2017 ء میں  کیا،اب تک آٹھ ماہ بیت چکے ہیں۔ اگر اسی مرحلے  کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اور بعد میں پوچھا جائے کہ :

کیا گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران امریکی افواج نے مجاہدین سے کسی ضلع کے مرکز اور یا کم ازکم ایک بڑاعلاقہ  چھین لی ہے ؟ کیا مجاہدین کو   کوئی ایسی قابل ذکر نقصان پہنچایا گیاہے،جس سے ان کی فوجی مؤقف پر اثر ہوا ہو؟ کیا اس دوران بیرونی اور ملکی افواج کے نقصانات اور مجاہدین کے حملوں اور کامیابیوں میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے ؟ کیا مراکز، چوکیوں اور کابل انتظامیہ کے زیرکنٹرول علاقوں کے سقوط کا سلسلہ رک چکا ہے  اور یا روزانہ کسی ضلع کا مرکز یا کابل رژیم کے زیرتسلط علاقہ سقوط کررہا ہے  اور متعدد فوجیوں کی ہلاکت یا زخمی ہونے کی اطلاعات آتی رہتی ہیں ؟

درج بالا سوالات کے حوالے سے افغانستان کی حالت سے باخبر ہر شخص یہی کہتا ہے کہ نہیں کبھی بھی میدان جنگ میں مذکورہ تغیرات سامنے نہیں آئے ہیں، بلکہ اس کے علاوہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے حملے ماضی کی بنسبت اب منظم اور مؤثر ہوچکے ہیں۔مجاہدین کے تسلط کا رقبہ مزید وسیع تر ہونے کی حالت میں ہے اور مخالف جہت کی نقصانات میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اپنی حقیقی نقصانات چھپانے پر مجبور ہوئے ہیں۔

امریکی جنرلوں کی حالیہ بے بنیاد بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی اعلی حکام تاحال کوشش کررہی ہے کہ اپنی عوام کو جھوٹے معلومات کرکے انہیں مصروف رکھے اور افغانستان میں قبضے کو جاری رکھنے کی خاطر حامیوں کو بھرتی کیا کریں۔  لیکن یہ امریکی عوام پر لازم ہے کہ افغان تنازعہ سے باخبر رہنے کے لیے آنکھیں کھول دیں، حقائق کی جستجو کریں،  تاکہ سمجھ جائیں، کہ یہاں امریکی جنگ پسند سیاستدانوں نے ایک بے ہدف، بے فائدہ  اور اخلاقی لحاظ سے ناجائز جنگ کو جاری رکھی  ہوئی ہے،جس کا امریکہ کے لیے نتیجہ صرف اور صرف جانی اور مالی نقصانات کے  علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔