امیر الموّمنین عظمتوں کے وارث

تحریر: محمد رسول بہار امیرلموّمنین کے  بارے   میں زیادہ  اور دلچسپ باتیں کہی  جاسکتی ہیں، کیونکہ وہ تاریخی  لحاظ سے   ایسے  عظیم شخص  تھے  جنہوں نے   ایسے حالات میں اسلام کا علم بلند کئے رکھا جب ہر  شخص جائے پناہ ڈھونڈ رہاتھا۔  انہوں  نے  امت مسلمہ اور خاص طور پر افغانستان کی تاریخ   میں  ایک […]

تحریر: محمد رسول بہار
امیرلموّمنین کے  بارے   میں زیادہ  اور دلچسپ باتیں کہی  جاسکتی ہیں، کیونکہ وہ تاریخی  لحاظ سے   ایسے  عظیم شخص  تھے  جنہوں نے   ایسے حالات میں اسلام کا علم بلند کئے رکھا جب ہر  شخص جائے پناہ ڈھونڈ رہاتھا۔  انہوں  نے  امت مسلمہ اور خاص طور پر افغانستان کی تاریخ   میں  ایک روشن باب کا اضافہ کیا۔
آپ کی شخصیت کے  حوالے سے   بہت سی  تحریریں سامنے آرہی ہیں جن میں ایسے  حقائق  بیان کئے گئے ہیں جنہیں پڑھ کر  انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہر شخص کی کوشش یہی ہے کہ  ایسا کچھ لکھا جائے جو دوسروں نے نہیں  لکھا ہو اگر کسی نے  لکھا بھی ہے تو  اس کی ترتیب اور اسلوب  تبدیل کرتے ہیں، اس وقت میرے ذہن میں امیرالموّمنین رحمہ اللہ کے  بارے میں دو باتیں  ہیں اور مجھے  ان کی  خوبیوں میں یہ دونوں خوبیاں بہت اہم  نظر آرہی ہیں۔
جہادی ثمرات   کا  محافظ:
اس بات  میں کسی شخص کا اختلاف  نہیں کہ  افغان جہاد کی  فتوحات صرف افغانستان کیلئے اہم نہیں  بلکہ  یہ پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے  اہم ہیں۔ کیونکہ ہم نے  دیکھا جب  روسی شکست کے بعد کچھ کمانڈر آپس میں دست  و گریبان ہوئے تو دنیا کے بڑے  بڑے علماء کرام  ان کی صلح کیلئے سر گرم ہوئے۔ کچھ علماء کرام اور بزرگ  اشخاص کو اس معاملے میں کئی تکالیف بھی  برداشت کرنی پڑیں، لیکن  انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی  اور اپنا کام  جاری رکھا۔ ان کے  اس اقدام سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ  ان کیلئے ہماری صفوں میں اتحاد   سب سے زیادہ  اہمیت کا حامل ہے۔
 روسی  انخلاء کے وقت ایک  عجیب  اتحاد قائم ہوا تھا ۔لیکن افسوس کہ  بعض ناعاقبت اندیش رہنماوّں نے جہادی اہداف کو پیش نظر نہیں رکھا اور دشمن کے انتخاب کردہ راستے پر چل پڑے ۔دوسری جانب کفار آپس میں لاکھ اختلافات کے باوجود مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ متحد ہوتے ہیں۔
 ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکا  نے روس کے خلاف  افغانوں کی مدد کی تھی اور کسی قسم کی مدد سے دریغ نہیں کیا۔ جب بات  اسلامی  نظام پر پہنچی  اور  مجاہدین  آپس میں  نظام حکومت پر  بات چیت کر رہے تھے۔  تو کفار کی  دشمنی   اچانک دوستی میں تبدیل ہوگئی اور یہ دونوں  فریق [روس اور امریکا]  اس بات پر متفق ہوئے  کہ افغانستان میں اسلامی  نظام کا راستہ  روکا جائے ۔
جب  روس شکست کھا چکا تو مغربی مفکرین نے کہا:” وقتی دشمن شکست کھا گئے اور ازلی دشمن فائدہ  مند ہوئے” یعنی روس اور امریکا کی مخالفت گو کہ وقتی تھی لیکن اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی ازلی اور ہمیشہ کیلئے ہے، اسلامی نظام  روس اور امریکا دونوں  کیلئے ناقابلِ  قبول ہے اس لئے دونوں ممالک  نے  ایک ساتھ اسلامی  نظام کے خلاف کارروائیوں  کا آغاز کیا۔
ان دونوں ممالک  کی کوششیں  تھیں کہ افغانستان میں جہادی  تحاریک   کے درمیان ایسی جنگ چھڑی جس نے جہاد کی  عظمت کو لوگوں کے  اذہان  سے ختم کیا۔ جہاد کو  کمیونسٹ اور  نیشنلسٹ  ایجنٹوں نے  فساد  قرار دیا۔ عام لوگ ان سے   متاثر ہوئے۔ اسلامی تحریک  کو ایک  ناکام جماعت کے طور پیش کیا گیا۔
جب تنظیمی اختلافات عروج پر پہنچ گئے، حالات ایسے ہوئے کہ لوگوں   کا جینا دو بھر ہوا ۔۔۔۔۔ لیکن  اس وقت جب  جہاد کے  عظمتوں کے  وارث تلوار تان کر میدان میں آئےتو   امیدوں کے  چراغ روشن ہوئے۔ ہر سو جہاد کی خوشبو پھیل گئی۔ اسلام کی خاطر جان قربان کرنے والوں  کی  اہمیت  بڑھ  گئی۔ وہ سر  ،سر خرو ہوئے  جو اللہ کی  راہ میں شریعت کے نفاذ کی خاطر کٹے تھے۔ ان  افراد کو قدر کی نگاہ سے  دیکھا جانے لگا  جنہوں نے  اپنی جوانیاں اس  محمدی شریعت کیلئے قربان کی تھیں۔انہوں نے اسلامی نظام قائم کرکے دنیا کو  بتادیا کہ ہم  نے اس نظام کیلئے  قربانیاں دی تھیں۔
افغانی  تاریخ کا  تسلسل:
 باہمی  جھگڑوں  اور اختلافات کے باعث افغان قوم ایک ایسےموڑ پر پہنچ گئی تھی  جس سے  تاریخی لحاظ سے کسی قسم کے  امن کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی۔دشمن کا خیال  تھا  کہ   یہ لوگ اب کبھی متفق نہیں ہوسکتے، ان کی یہ سوچ کسی حد تک صحیح بھی تھی کیونکہ افغانوں  نے  تاریخ پر  صرف اس وقت   گہرے نقوش ثبت کئے  جب  وہ آپس میں متحد ہوئے۔ اگر اتحاد و اتفاق کا فقدان ہو تو  تاریخ میں   زرداد خیل کے قصے لکھے جائیں   گے۔
سب سے برا چیلنج  جس  پر اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور پوری دنیا لب کشائی میں مصروف تھا وہ افغانستان کی  تقسیم کا عمل تھا۔کچھ لوگ تو  ملک کے  اندر  بھی اس خوس فہمی میں مبتلا تھے کہ  ہوسکتا ہے اس تقسیم کے عمل میں  انہیں  بھی کوئی وزارت مل  جائے۔  لیکن عین اسی وقت  ایک ایسے  شخص نے جہاد کا علم بلند کیا جس  نے  دشمنوں کے تمام مذموم عزائم خاک میں ملادئیے۔ملک کی  تقسیم  کے منصوبے بنانے والے چوہوں کی  طرح بلو ں میں گھس گئے۔انہوں   نے ابدالی جغرافیے کی  ایسی حفاظت کی کہ تجزیہ کرنے والوں  نے ماسکو، واشنگٹن اور استنبول کا  رخ کیا۔ افغانستان کی تقسیم کا  ہر منصوبہ  ناکامی سے  دو چار ہوا، اور ملکی اتحاد کو عقیدے کی  بنیاد پر   تاریخی اتحاد  فراہم کیا۔
آج دیکھیں کہ ملک کے شمالی علاقوں میں مجاہدین امارت اسلامی  کی اطاعت میں کس  رشتے کے  تحت متحد ہیں؟ ، آج اس  منظر کی کیسی  تصویر کشی کریں گےکہ  امارت اسلامیہ کے  مجاہدین ملک کے  طول  وعرض میں موجود  اور  باہمی  طور پر متحد ہیں۔
جی ہاں امیرالموّمنین افغانی تاریخ کی  عظمتوں کے وارث تھے۔جنہوں نے  اس ملک کو   نہ تباہ ہونے دیا نہ تقسیم  برداشت کی۔ کچھ مغربی ایجنٹس  نے مسلم امت کے اس بھائی  چارے پر کاری وار کئے،لیکن  امیر لموّمنین ان کے  راستے کی دیوار  بن گئے۔ کیونکہ آپ اس خطرے کو  بھانپ گئے تھے جس کے  مقابلے میں افغان عوام کی ایک  تاریخی  تحریک  وجود میں  آئی، اور نہ صرف ملک بلکہ عالمی سطح پر ایک  با اثر  رہنما کے  طور پر ابھر کر سامنے آئے۔اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امیر الموّمنین افغانی تاریخ  کے  عظمتوں کے حقیقی وارث  تھے۔