انف فی الماء واست فی السماء

ماہنامہ شریعت کا اداریہ کابل کے کٹھ پتلی ادارے کے برائے نام سربراہ اشرف غنی نے کابل میں ہونے والے ایک فوجی  تقریب میں کہاہے کہ” مخالفین (طالبان) کو چاہئے کہ سرنڈرہوجائیں ‏اگرسرنڈرنہیں ہوئے تو افغان کمانڈوز کے ذریعے انہیں سرنڈر ہونے کے لئے مجبورکردیاجائے گاکیونکہ پوری قوم افغان فوج کی پشت پر ہے”(حالانکہ دنیا […]

ماہنامہ شریعت کا اداریہ

کابل کے کٹھ پتلی ادارے کے برائے نام سربراہ اشرف غنی نے کابل میں ہونے والے ایک فوجی  تقریب میں کہاہے کہ” مخالفین (طالبان) کو چاہئے کہ سرنڈرہوجائیں ‏اگرسرنڈرنہیں ہوئے تو افغان کمانڈوز کے ذریعے انہیں سرنڈر ہونے کے لئے مجبورکردیاجائے گاکیونکہ پوری قوم افغان فوج کی پشت پر ہے”(حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ قوم کس کی پشت پر ‏ہےاورقوم کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں)۔

اشرف غنی جو بیرونی غاصبوں کی موجودگی میں ایک بے اختیاراورکٹھ پتلی سربراہ ہے اورساتھ ہی اس  کی بے سروپاباتیں بھی عوام میں اتنی مشہورہیں  کہ اکثرلوگ اسے نارمل انسان ‏بھی نہیں سمجھتے ،اس لئے اس کی یہ بات بھی اتنی زیادہ قابل توجہ نہیں ۔لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں موجود بیرونی افواج  کے سربراہ امریکی جنرل نکولسن  نے بھی کہا کہ طالبان کے ‏پاس دوراستے ہیں ۔ یا تووہ خود سرنڈرہوجائیں یا پھر افغان کمانڈوز کے ذریعے انہیں سرنڈرکردیاجائے گا۔

امارت اسلامیہ کے مجاہدین دنیا کے ایٹمی طاقت  اوربہترین دفاعی سسٹمزرکھنے والے 48ممالک سے بنے  دنیا کے بڑے اتحادکے خلاف نہ صرف یہ کہ 16 برس تک برسرپیکاررہے ‏بلکہ اپنی جان کی قربانیاں دے کر انہیں گھٹنے ٹیکنے پر بھی مجبورکردیاہے ۔ اشرف غنی  جیسے  کٹھ پتلی حکمران اورنکولسن جیسے ناکام کمانڈرکی جانب سے امارت اسلامیہ کے ان پرعزم ،پختہ ارادوں  کے ‏مالک، ثابت قدم اوراپنے وقت کے عظیم فاتحین مخلص مجاہدین سے ایک  غلام اورمزدورفوج کے سامنے سرنڈرہونے کا مطالبہ کیا جارہاہے  تومجھے عربی زبان کا مشہورمقولہ سامنےآجاتاہے کہ : انف ‏فی الماء واست فی السماء۔

جنگوں میں افغانوں کی جرات وبہادری ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جس سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔افغانوں کی اسی جرات وبہادری کی بدولت یہاں ہر چھوٹے بڑے غاصب ‏اوریلغارکرنے والے کو منہ کی کھانی پڑی ہے ۔لیکن ہم سب کا یہ عقیدہ اورایمان ہے کہ افغانستان میں جب بھی کسی یلغارکرنے والے کوشکست ہوئی ہے  وہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اورمدد سے ‏ہوئی ہے افغانوں کی جرات وبہادری صرف اس کے لئے ایک سبب بنی ہے۔اللہ تعالیٰ کی مددونصرت نہ ہوتوتمام افغان مل کر بھی دشمن کے ایک اہلکارکو شکست نہیں دے سکیں گے ۔

ہمارایہ بھی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی باطل کی مدداورنصرت نہیں کرتا ،وہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتاہے ۔ہم اسی عقیدے کی بنیاد پر دشمن سے لڑ رہے ہیں ، ہم اسی عقیدے کی بنیاد ‏پر اپنے حق اورسچے اہداف کے حصول اوراللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے دشمن سے نبردآزماہیں ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہرموقع اورہردشمن کے مقابلے میں فتح اورکامرانی سے نوازاہے ۔لیکن ‏افغانوں کی جولڑائی باطل کے لئے ہو ،مذموم اہداف ومقاصد کے لیے ہوتووہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوئے ۔مثال کے طور پر ڈاکٹرنجیب کی پوری فوج افغانوں پر مشتمل تھی ،یہ ایک منظم فوج تھی ‏،چند علاقوں کے علاوہ  پورے ملک پر ان کی حکومت تھی ،اسلحہ کی بھی ان کے پاس کمی نہیں تھی کہ روسی افواج  بہت سارااسلحہ ،جنگی جہاز،ٹینک وغیرہ چھوڑگئے تھے ۔روسی افواج کے جانے کے بعد ‏یہ فوج تقریباتین سال تک مجاہدین سے لڑتی رہی، لیکن چونکہ یہ جنگ باطل کے لیے تھی اوراللہ تعالیٰ کی  مدداورنصرت شامل حال نہیں تھی اس لئے انجام کار مجاہدین کے مقابلے میں انہیں ‏شکست سے دوچارہونا پڑا۔

اس کے بعد پھر طالبان کی اسلامی تحریک کے مقابلے میں جوگروپ لڑرہاتھا وہ بھی افغانوں پر ہی مشتمل تھا ،ان کے پاس بھی وسائل کی کمی نہیں تھی سابقہ حکومت کے تمام وسائل ‏ان کے پاس رہ گئے تھے لیکن چونکہ ان کی لڑائی بھی حق کے لئے نہیں تھی اس لئے  انہیں بھی شکست ہوئی ۔

کابل ادارے کے حالیہ تمام فوجی بھی افغانی ہی ہیں لیکن یہ فوج امریکہ کی بنائی ہوئی فوج ہے اورامریکہ  کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی  ہوکر ان مجاہدین کے ساتھ برسرپیکارہے جو اپنے ‏ملک کی دفاع ،یہاں اسلامی نظام کے نفاذاوربیرونی غاصبوں  سےاپنا وطن پاک کرنے کےلئے  اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں ۔

تو حق کے مقابلے میں باطل کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑی ہوکر لڑنے والی  ،صرف  نام کے افغانوں سے بنی فوج کے بارے میں  امارت اسلامیہ کے مخلص ،حق پرست  ،دین وملت کے ‏محافظین اوربیرونی غاصبوں سے اپنے وطن کی آزادی کی خاطر جان قربان کرنے والے مجاہدین کے مقابلہ میں فتح اورکامیابی کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔پوری قوم جانتی ہے کہ ایسی فوج کی مجاہدین ‏کےمقابلے میں شکست یقینی ہے ۔عوام تودرکنا ر خود فوجی  اہلکار،مجاہدین کے مقابلے میں اپنی شکست کو یقینی جانتے ہیں ۔وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کی یہ لڑائی باطل کےلئے ہے ،اس ‏لئے آئے روز فوج میں شامل نوجوان فوج سے فرارہورہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سولہ برس  میں اربوں ڈالرز صرف کرکے بھی بیرونی غاصبین افغانستان میں فوج کے لیے مقررہ تعداد ‏پوراکرنے سے قاصررہے ہیں ۔

پوری دنیا چیخ چیخ کرکہہ رہی ہے کہ افغانستان میں مغربی اتحادشکست سے دورچارہے اوراتحادمیں شامل ممالک ایک ایک کرکے افغانستان سے بھاگ رہے ہیں اور یہاں سے اپنی فوج ‏واپس بلانے کے فیصلے کررہے ہیں ۔امریکا جو اس اتحاد کاسربراہ ہے، میں کوئی ایک اہلکاربھی ایسانہیں جو اس جنگ سے پر اُمیدہو اوراس نے یہ جنگ جیتنے کی امید کا اظہارکیاہو ۔ اورتواورخود امریکی ‏وزیردفاع بھی اپنی شکست تسلیم کرتاہے ۔چند دن پہلے اس نے بڑے واشگاف الفاظ میں کہاتھا کہ افغانستان میں امریکی حکمت عملی ناکام ہے اوراس حکمت عملی کے ساتھ طالبان کے مقابلے میں ‏کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔اس کے علاوہ امریکی صدرٹرمپ نے بھی علی الاعلان کہا ہے کہ یہ لڑائی امریکہ کے لئے ایک بے فائدہ ،سب سے طویل اورناکام جنگ ہے ۔

اس کے مقابلے میں امارت اسلامیہ کے کسی چھوٹے یابڑے رہنماکی زبان سے کمزوری اورلاچارگی کا ایک لفظ بھی نہیں نکلاہے جسے اشرف غنی مجاہدین کی پسپائی  پر بطورایک کمزورسی ‏دلیل کے پیش کرسکے ۔بلکہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ دشمن کے مقابلے میں طالبان کی لڑائی دن بہ دن مضبوط ہوتی جارہی ہے ۔نوجوان اتنی تیزی اور بڑی تعداد کے ساتھ میدان جنگ کی طرف ‏آرہے ہیں کہ ان کاسنبھالنا مشکل ہورہاہے ۔امارت اسلامیہ کے رہنماوں حتی کہ امیرالمومنین کے بچے بھی  صف اول میں لڑ رہے ہیں۔کامل اخلاص اورشوق وجذبہ کے ساتھ ان نوجوانوں کی ‏میدان جنگ میں لڑنے کی بدولت ملک کے مختلف اطراف میں ہماری  تازہ ترین بڑی فتوحات دنیا کے سامنے ہیں ۔توہمیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے کہ افغانستان کے ذوالحال سربراہ کس دلیل پر ‏طالبان کو سرنڈرہونے کا کہہ رہاہے ؟۔

البتہ اگر اشرف غنی امریکہ کے کابل ادارے کے ساتھ تعاون جاری رکھنے اور 4000مزیدفوجی بھیجنے کے وعدہ پر اچھل رہاہے اوراسے اپنے تمام دکھوں کا مداوسمجھ رہاہے تو یہ اس کی ‏نری حماقت ہے ۔امریکہ کی حمایت اورقیام تو یہاں گزشتہ 16برسوں سے ہے ،ان سولہ برس میں امریکی اور دیگراتحادیوں کے لاکھوں فوجیوں نے کیا کیا جو اب 4000 مزیدفوجی  آکر کریں گے ‏؟ ‏

ہاں ! امریکہ کے اس فیصلے سے اتناہوگا کہ ہردن امریکہ پہنچنے والے تابوتوں میں مزیداضافہ ہوگا ،بے جاجنگی اخراجات اوربڑھیں گے اور امریکہ کی ساری دنیا کے سامنے مزیدجگ ‏ہنسائی ہوگی۔ اب یہ امریکہ پر ہے کہ وہ حماقت سے بھرپوراپنے اس فیصلہ پر قائم رہتا ہے یا سمجھ داری کاثبوت دیتے ہوئے افغانستان میں باقی ماندہ فوجیوں کو بھی امریکہ بلاکر مصیبت سے جان ‏چھڑاتاہے۔