انڈونیشیا کے اجلاس نے کیا ثابت کردیا ؟

گذشتہ کئی مہینوں سے امریکی حکام اور کابل رژیم اس جدوجہد میں تھی، کہ انڈونیشیا میں علماءکرام کا اجلاس منعقد کریں  اور بعد میں  افغانستان میں امریکی جارحیت کے خلاف جاری جہاد کے خلاف اجلاس کے ذریعے  ایک ایسی فتوی حاصل کریں، جس کی رو  سے جاری جہاد کو ناجائز قرار دیا جائے۔ افغانستان، پاکستان […]

گذشتہ کئی مہینوں سے امریکی حکام اور کابل رژیم اس جدوجہد میں تھی، کہ انڈونیشیا میں علماءکرام کا اجلاس منعقد کریں  اور بعد میں  افغانستان میں امریکی جارحیت کے خلاف جاری جہاد کے خلاف اجلاس کے ذریعے  ایک ایسی فتوی حاصل کریں، جس کی رو  سے جاری جہاد کو ناجائز قرار دیا جائے۔

افغانستان، پاکستان اور انڈونیشیا کے علماء کرام کا اجلاس آخرکار انڈونیشیا کے بوگور شہر میں 11 مئی کو منعقد ہوا۔ مغربی میڈیا مسلسل پروپیگنڈہ کرتارہا کہ انڈونیشیا اجلاس سے افغان عوام کے جاری جہاد کے خلاف فتوی جاری  کی جائیگی۔ مگر جب اجلاس کے اعلامیے  کو اعلان کیا گیا، تو معلوم ہوا ہےکہ انڈونیشیا میں علماء کرام کے اجلاس  سے افغان جہاد کے خلاف کوئی فتوی سامنے آئی  اور نہ  ہی  امریکی جارحیت کو جائزسمجھا گیا۔  اجلاس کی جانب سے ابلاغ شدہ اعلامیہ میں صرف عام نصائح بیان کی گئی،جن میں جانبین کو شہری نقصانات  کے روک تھام پر متوجہ کیا گیا ہے اور تنازع کے پرامن حل کے متعلق سفارشات کی گئی ۔

ایسی حالت میں کہ علماء کرام کے اس اجلاس کے تمام امکانات وغیرہ امریکہ اور اس کے سیاسی حامیوں نے فراہم اور ان  کی سرپرستی میں منعقد ہوا تھا، مگر اس کے باوجود  علماء کرام نے موجودہ جہاد کے خلاف فتوی جاری نہیں کی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی فوجی جارحیت کے خلاف موجودہ جہاد ایک ایسا واضح اور ثابت حقیقت ہے، جس سے کوئی انکار جرائت نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کے پاس ایسی دلائل ہیں، جن کی رو سے اسے ناجائز قرار دے۔

عقلی اور قانونی کلیہ ہے کہ  ( السکوت فی موضع البیان اقرار ) یہ کہ انڈونیشیا میں  اکھٹے ہونے والے علماء نے رواں جہاد کے متعلق خاموشی اختیار کرلی، حالانکہ انہیں اس لیے جمع کیے گئے تھے کہ جہاد کے ناجائز ہونے کے بارے میں فتوی جاری کریں، ان کی خاموشی جہاد سے انکار نہیں، بلکہ جہاد کے اقرار کا معنی دے رہا ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے  کہ امریکی جارحیت کے خلاف افغان عوام کا قیام دینی رو سے جائز بلکہ لازمی حکم ہے۔

انڈونیشیا میں علماء کرام کے اجلاس سے استعمار، اس کے حواری اور جارحیت میں ملوث ممالک کے حکام اور عوام کو  یہ درس حاصل کرناچاہیے کہ  ہمارے ملک میں اجنبی جارحیت کے خلاف جہاد کوئی دہشت گردانہ عمل ہے  اور نہ ہی چند افراد نے بغاوت کی ہے، بلکہ یہ ایک ملت کی حریت پسند ی کا ملک گیر قیام ہے، جسے اسلامی اور دینی اصطلاح میں مقدس جہاد کہا جاتا ہے۔

امارت اسلامیہ تمام غاصب ممالک اور ان کے حامیوں کو بتاتی ہے کہ اس طرح اظہر من الشمس حقائق جن کی رو سے افغان عوام کے جہاد کی سچائی ثابت ہوتی ہے، اسے سنگین سمجھا جائے۔ استعمار کو سمجھنا چاہیے کہ  ہمارا جہاد قوی تر دینی، علمی اور  منطقی دلائل پر استوار ہے۔  ایسی مزاحمتیں جن کے تقدس پر  ایک مکمل ملت کو یقین ہے، جن میں قتل ہونے کو مقدس شہادت  اور  ان میں ہر نوع شرکت کرنے  کو اخروی اجر اور دنیوی فخر سمجھتا ہے، اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے، تو فوجی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی مزاحمتوں کی مکمل نابودی  کی مثالیں نہیں  ملتی، اس لیے بہتر یہ ہے کہ استعمار کو صلح و امن کی راہ اپنانا چاہیے  اور افغان عوام کی حریت پسندی کے داعیہ کا  احترام کریں۔