ایک اور پالیسی اور دوسرے جنرل کی ناکامی

افغانستان پر امریکی جارحیت کے سترہ سال مکمل ہونے والے ہیں۔ سترہ سالوں کے دوران امریکہ میں تین حکومتیں اور صدور آئیں۔ جن میں ہر ایک صدر نے افغان جنگ کو جیتے کے لیے الگ الگ پالیسیاں اعلان اور مرتب کیں۔ بش، اوباما اور ٹرمپ کے دور اقتدار میں افغانستان میں مختلف پالیسیوں کو تجربہ […]

افغانستان پر امریکی جارحیت کے سترہ سال مکمل ہونے والے ہیں۔ سترہ سالوں کے دوران امریکہ میں تین حکومتیں اور صدور آئیں۔ جن میں ہر ایک صدر نے افغان جنگ کو جیتے کے لیے الگ الگ پالیسیاں اعلان اور مرتب کیں۔

بش، اوباما اور ٹرمپ کے دور اقتدار میں افغانستان میں مختلف پالیسیوں کو تجربہ کرنے کیساتھ ساتھ مختلف فوجی جنرلوں کو توظیف کیے گئے۔ تاکہ امریکی تاریخ کے سب سے بڑی جنگ کو کامیابی کے منزل تک پہنچا سکے۔

مگر سترہ سالہ تجربوں کے بعد رویٹرخبر رساں ادارہ اپنی تحقیقات کی رو سے کہتی ہے کہ افغانستان میں وائٹ ہاؤس کی حالیہ فوجی پالیسی جو گذشتہ سال اگست میں اعلان کی گئی اور میڈیا نے اسے ٹرمپ پالیسی کا نام دیا، وہ بھی سابقہ پالیسیوں کے مطابق ناکام ہے  اور تاحال اس کی کامیابی اور کامرانی نظر نہیں آرہی ہے۔

رویٹر نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ٹرمپ پالیسی کا عمدہ ہدف طالبان کو کمزور کرنا ہے، میدان جنگ میں طالبان کو شکست دینا اور ان سے علاقوں کا کنٹرول حاصل کرنا تھا۔ مگر ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود امریکی اور افغان فوجوں نے طالبان سے کسی بھی علاقے کا قبضہ حاصل کرسکااور نہ ہی جنگ میں حملہ آور ہونے  کے مؤقف کو اپنا سکا۔

دوسری جانب امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل نے اطلاع دی ہےکہ ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈ  جنرل نیکولسن کو بھی عہدے سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ سکاٹ میلر نامی جنرل کو مقرر کیا۔

نیکولسن کو اس لیے عہدے سے برخاست کیا گیا کہ میدان جنگ میں ان کا اثر ثابت ہوا اور نہ ہی کوئی قابل توجہ کامیابی حاصل کرسکی۔

مذکورہ رپورٹوں سے فی الجملہ یہ نتیجہ اخذکی جاتی ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ایک اور جنگی پالیسی ناکام اور آٹھواں فوجی جنرل بھی شکست سے محکوم ہوا۔ تجرباتی علوم میں کلیہ یہ ہے کہ ایک فارمولہ کئی بار تجربے کے بعد مطلوبہ نتیجہ نہیں دیتی، تو فارمولہ غلط ہے  اور اس کی جگہ کسی اور فارمولے کو مدنظر رکھا جائے۔  افغانستان میں امریکی فارمولے گذشتہ سترہ سالوں سے غلط نتائج دے رہے ہیں اور مسلسل طور پر ناکام ہوتے جارہے ہیں۔مگر وائٹ ہاؤس کے حکام عقل سے کام لینے کے بجائے مزید فوجی فارموں اور پالیسیوں کو آزمانے پر یقین رکھتے ہیں اور آٹھویں جنرل کی ناکامی کے بعد نویں جنرل کو میدان جنگ بھیج رہا ہے۔

امارت اسلامیہ کا خیال ہے کہ بار بار فوجی پالیسیاں اور تجربات کرنے سے نتیجہ صرف اور صرف مکرر شکست ہے۔ اگر امریکہ اس کشمکش سے آبرومندانہ نکلنا چاہتا ہے، تو فوجی فارمولے بار بار تجربہ کرنے کے بجائے فارمولے کو بدلنا چاہیے اور افہام وتفہیم اور پرامن حل کی پالیسی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ افغان عوام کا مشہور ضرب المثل ہے ، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کہ ” پہاڑ جتنا بھی بلند ہو، مگر پھر بھی   اس کے سر پر راہ ہوتی ہے” ہمیں یقین ہے کہ افغان تنازعہ افہام و تفہیم اور مذاکرات کے ذریعے حل ہوسکتی ہے  اورآخرمیں افغان عوام صلح اور استقرار تک پہنچ سکتی ہے۔