بدعنوانی کا سدباب کیسا کیا جاسکتا ہے

چند روز قبل کابل میں یورپی یونین نے  بدعنوانی کے خلاف مہم کے سلسلے میں چہارم کانفرنس کے نام سے ایک تقریب منعقد کی،اس کانفرنس میں اہم خطاب کے شرکاء میں  مشترکہ حکومت کے سربراہ اشرف غنی اور امریکی حکومت کی نمائندگی میں امریکی  مانیٹیرنگ ادارے  سیگار کے سربراہ جان سوپکو  تھے۔ رژیم کے سربراہ […]

چند روز قبل کابل میں یورپی یونین نے  بدعنوانی کے خلاف مہم کے سلسلے میں چہارم کانفرنس کے نام سے ایک تقریب منعقد کی،اس کانفرنس میں اہم خطاب کے شرکاء میں  مشترکہ حکومت کے سربراہ اشرف غنی اور امریکی حکومت کی نمائندگی میں امریکی  مانیٹیرنگ ادارے  سیگار کے سربراہ جان سوپکو  تھے۔

رژیم کے سربراہ اشرف غنی نے کہا” کہ بدعنوانی وہ مسئلہ ہے، جس نے افغانستان میں کافی بحرانوں کو جنم دی ہے،جو ملکی  تعمیر نو کے خلاف بنیادی رکاوٹیں تصور کی جاتی ہے”۔ امریکی نمائندہ جان سوپکو اشرف غنی سے ایک قدم آگے نکل گیا اور کہا کہ” عوام تو ظاہری طور پر   جنگ کو افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ بدعنوانی جنگ سے بھی عظیم بحران ہے ، جس نےافغان عوام کے لیے کافی مسائل ایجاد کیے ہیں”۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدعنوانی بدترین رجحان ہے،جس نے وطن عزیز اور افغان عوام کو تعلیمی، عدالتی، معاشی، تعمیراتی اور زندگی کے تمام شعبوں میں مصائب سے روبرو کیا ہے۔ بدعنوانی کی وجہ سے روزانہ لاکھوں افعانوں کے حقوق تلف کیے جاتے ہیں، مظلوم ملت کی جائیدادیں اور سرمایہ غاصبوں اور بدعنوان افراد کی جانب سے ناجائز طور پر لوٹے جاتے ہیں  اور بیت المال سے متعلق املاک مختلف النوع جعلی کاروائیوں سے غصب اور لوٹے جاتے ہیں۔

مگر بات یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ اشرف غنی اور جان سوپکو کس سے شکایت کررہا ہے؟کیا افغانستان میں بدعنوانی  کو حاکم رژیم اور امریکی حکام کے علاوہ کسی اور نے رائج کیا ہے،جس سے وہ اب شکایت کررہا ہے؟  اب افغان عوام بخوبی جانتے ہیں،کہ امریکی جارحیت سے قبل افغانستان میں امارت اسلامیہ کا نظام عالمی سطح پر شفاف ترین نظام تھا، جس میں بدعنوانی نادر اور نایاب جرم کی حیثیت سے پہنچانا جاتا۔

مگر یہی امریکی استعمار اور اس کے ہیلی کاپٹروں سے اتروائے جانے والے کٹھ پتلی تھے، جنہوں نے دیگر فسادات کے علاوہ اس منحوس رجحان کو  افغانستان لایا اور پھر ایک منظم پروگرام کی رو سے بدعنوانی پھیلانے والی قراردادوں کی ترویج سے اسے جان بوجھ کر اتنی نمو دی، کہ حکام کی اکثریت کو ایک غیر جرمی عادی عمل کے طور پر اس کی تشریج کردی گئی ۔ اب بدعنوانی نے حکومت کے طول و عرض میں جڑیں پکڑرکھی  ہیں اور ایک نظام شمول منحوس رجحان  کی حیثیت سے ملت اور ملک  کی رگوں کو چوسنے کا آغاز کیا، عالمی سطح پر بدعنوانی میں پہلے نمبر رژیم کا سربراہ اس کے حامی اب  باتوں اور تبصروں سے  اس رحجان کا سدباب کرنا چاہتا ہے۔

اگر اشرف غنی اور مریکی حکام درحقیقت بدعنوانی کو ایک منفی رجحان کی نظر سے دیکھ رہا ہے، تو سب سے پہلے اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک لے۔ ذاتی بدعنوانی پھیلانے والی اقدات کا اصلاح کریں،  بینک لوٹنے والوں، رشوت خوروں، غاصبوں، اغواء کار حکام کو قابو میں کریں اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کو سب سے پہلے اپنے آپ سے شروع کریں۔ اس کے علاوہ صرف من گھڑت باتوں اور مکرر پروپیگنڈہ کانفرنسوں سے  کسی کی زخم پر مرہم پٹی نہیں کرواسکتی، افغان مجاہد ملت  کے پاس  بدعنوانی سے نجات کی واحد راہ ہے، وہ یہ کہ کرپشن کا سرچشمہ جارحیت ہے، جسےمقدس جہاد کے ذریعے اختتام کو پہنچادیں اور اس کی جگہ عادلانہ شفاف اور کرپشن سے پاک اسلامی نظام کو قائم کریں۔