جارحیت کو برقرار رکھنے کے لیے ایک اور کانفرنس

بلجیئم کے دارالحکومت بروکسل شہر میں 04 اور 05 اکتوبر کو افغانستان کے بارے میں ایک کانفرنس منعقد ہوگی۔ کہاجاتا ہے کہ اس کانفرنس میں 70 ممالک اور 30 عالمی این جی اوز کے نمائندے شرکت کرینگے۔ 08 اور 09 جولائی  کو منعقد ہونے والی وارسا کانفرنس  میں فوجی تعاون ،لیکن اس کے برعکس بروکسل […]

بلجیئم کے دارالحکومت بروکسل شہر میں 04 اور 05 اکتوبر کو افغانستان کے بارے میں ایک کانفرنس منعقد ہوگی۔ کہاجاتا ہے کہ اس کانفرنس میں 70 ممالک اور 30 عالمی این جی اوز کے نمائندے شرکت کرینگے۔ 08 اور 09 جولائی  کو منعقد ہونے والی وارسا کانفرنس  میں فوجی تعاون ،لیکن اس کے برعکس بروکسل کانفرنس  کابل کرپٹ انتظامیہ  کیساتھ مالی  فنڈنگ اور سیاسی حمایت کے لیے طلب کی گئی ہے۔

قابل یاد آوری ہےکہ بون پہلی کانفرنس سے لیکر بروکسل کی آخری کانفرنس تک استعماری ممالک نے کوشش کی ہے کہ اس طریقے سے افغانستان میں اپنے قبضے اور کرپٹ انتظامیہ کو قانونی جواز فراہم  اور اسے برقرار رکھے۔ انہی کانفرنسوں کے انقعاد کے پس پردہ استعمار کا یہی پہلا مقصد تھا اور ہے، مگر ہر کانفرنس کے بعد کاغذی کاروائی میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کیساتھ ساتھ عملی میدان میں کابل انتظامیہ کی ناکامی، ناجائز اعمال،  کرپشن،باہمی کشمکش، عوام کے حق میں ظلم اور انصافی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

جہاں ہموطن میونسپلٹی کابِل رشورت کے بغیر جمع نہیں کرواسکتا، جہاں سرکاری اور فوجی عہدے  رقم کے بدلے اور ادائیگی سے ملتے ہیں اور منشیات  کا کاروبار سرکاری گاڑیوں میں کیا جاتا ہے۔ وزراء کی تقرری واشنگٹن اور یورپی ممالک سے عمل میں لائی جاتی ہے۔ کیا اس طرح انتظامیہ عوام کے لیے حقیقی خدمت کرسکے گی؟ جہاں ریاستی ادارے چند افراد کے درمیان طول و عرض میں تقسیم ہوئے ہو۔ کیا اہل اور قابل ہموطن روشن مستقبل کی امید کرسکتی ہے؟

ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ اقربا پروری، کرپشن اور غبن نے مالداروں اور غریبوں کے درمیان فاصلے کو بڑھا دی ہے۔ ایک جانب چند افراد ارب پتی بن گئے، مگر دوسری طرف عوام  کے پاس رات اور دوپہر کا کھانا نہیں ہے۔ اب وطن عزیز کے 40 فیصد باشندے خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ عشرے میں کوئی بڑا قومی منصوبہ مکمل ہوا ہے؟ اس کے برعکس ایسے اخراجات ہوئے ہیں، جن سے عوام کو فائدہ نہیں پہنچا اور یا عارضی طور پر روزمرہ کام اس سے لیا گیا ہے۔

امارت اسلامیہ افغانستان ملک کی ترقی اور عوام کے سکون کا مخالف نہیں ہے، بلکہ یہ اس کے عظیم جہادی اہداف کا حصہ ہے۔ مگر عوامی سکون اور ترقی کے نام پر چند افراد کی جیبیں بھرنا اور یا ان رقم کو ہموطنوں کی قتل اور ملک کی تباہی پر خرچ کرنا ، ہماری عوام کے حق میں عظیم ظلم ہے۔ ان کے ایسے اعمال سے ظاہر ہوتا ہے  کہ استعمار اور کٹھ پتلی حکومتیں کبھی بھی عوام کے جائز مطالبات کو پورا  نہیں کرسکے گی، جیساکہ جارحیت کے گذشتہ ڈیڑھ عشرے میں یہ حقیقت کئی بار ثابت ہوا ہے۔

ملکی استقلال، علاقائی سالمیت اور آزادی، اپنے دین اور  ثقافت کی روشنی میں زندگی گزارنا اور اپنے ملک کے انتظام کو قائم کرنا، ہر ملت کا جائز، بنیادی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقوق ہیں،اس کانفرنس کے شرکاء انہیں پامال کرینگے۔

ہمارے خیال افغان مسلمان اور شریف عوام اس وقت مجموعی ترقی اور امن سے برخوردار ہوگی، جب ملک سے قبضہ ختم اور افغانستان میں حقیقی اسلامی اور ملی حکومت قائم ہوجائے۔ ایک ایسی حکومت جس کے  معاشی پالیسی کا عنوان عوام کے تمام جائز مطالبات کو انجام دینا ہو، نہ استعماری خواہشات کو پورے کرنے ہوں اور  جارحیت کو جاری رکھنے کے لیے اپنی عوام کو بمبار کرنا اور ملک کی تباہی ہو۔