جلال آباد المناک سانحہ…کون جوابدہ اورکون بری؟!!

دنیا میں دلخراش سانحات کبھی کبھار رونما ہوتے ہیں اور سانحے کے متعلق مختلف النوع ردعمل سامنے آتے ہیں، عام طور پر ہر دلسوز سانحہ کے بعد متاثرہ ملک کے تمام باشندے بےچین ہوتے ہیں، حکومت کے حامی اور مخالفت تمام غم میں شریک رہتے ہیں۔ میڈیا، انفارمیشن نیٹ ورک اور ابلاغی ذرائع نے اپنے […]

دنیا میں دلخراش سانحات کبھی کبھار رونما ہوتے ہیں اور سانحے کے متعلق مختلف النوع ردعمل سامنے آتے ہیں، عام طور پر ہر دلسوز سانحہ کے بعد متاثرہ ملک کے تمام باشندے بےچین ہوتے ہیں، حکومت کے حامی اور مخالفت تمام غم میں شریک رہتے ہیں۔ میڈیا، انفارمیشن نیٹ ورک اور ابلاغی ذرائع نے اپنے آپ کو وقف کیا ہو۔ہرشہری متاثرہ خاندانوں سے امدادی تعاون میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سیکورٹی اداروں، اینٹلی جنس افراد اور اعلی حکومتی اہلکاروں کو مورد الزام ٹہرایا جاتا ہے اور حکمران بھی خود کو نادم سمجھتے ہیں، اسی لیے فورا جائے واردات پہنچتے ہیں، عوام کو تسلی دیتے ہیں، بیرونی دوروں کو مؤخر یا اگر بیرونی دورے پر ہو، تب اسے مختصر کرکے جلد ہی وطن پہنچتے ہیں وغیرہ….

بدقسمتی سے وطن عزیز منحوس جارحیت کے چنگل میں ہے، آئےروز مصائب سے روبرو ہے۔افغان غیور اور مسلمان قوم روزانہ دردناک اور دل شکن واقعات سےدست وگریبان ہے، اگر چہ عوام میں اعلی سطح پر فداکاری اورسوگوار خاندانوں سے تعاون کا جذبہ موجود ہے، لیکن غلام رژیم کے عہدیداروں میں یہ احساس نہیں ہے۔کابل انتظامیہ کے سیاستدان احساس ذمہ داری کے بجائے گندے پانی میں مچھلیاں تلاش کرتے ہیں۔ ان میں بہادر اور کلیدی سیاستدان وہ ہے،جو سب سے پہلے اپنے سیاسی حریف پر سانحہ کی ارتکاب میں ملوث ہونے کا الزام لگائے اور پھر وہ شجاع اور ہیرو ہے، جو عوام کے سروں کی قیمت میں اس المناک واقعہ کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے خام مواد کے طور پر استعمال کریں۔ دوسری جانب میڈیا اور ابلاغی ذرائع بھی مربوطہ سیاسی تنظیموں کی ڈھول پر ناچتی ہے۔ حق و حقیقت، تحقیق و جستجو، جھوٹ اور سچ کے متعلق احساس ذمہ داری نہیں کرتے!!۔

جلال آباد کا حالیہ خونریز سانحہ جو جمعرات کےروز 18/اپریل 2015ء کو رونما ہوا، جس میں سو 100 سےزائد ہموطنوں کو جانی نقصان کا سامنا ہوا، بیشترہموطنوں کےگھروں میں صف ماتم مچ گیا۔ اس عظیم مصیبت نے ہمارے مصائب زدہ عوام کو غمزدہ کرکے اکثریت کو خوف میں مبتلا کیا ہے، کیونکہ ایک جانب شہریوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے اور دوسری طرف استعمار اور کابل انتظامیہ اس نوعیت کی سانحات کی سدباب کی منصوبہ کرتی ہے اور نہ ہی ارادہ رکھتی ہے، بلکہ بذات خود شہریوں کی ہلاکت میں ملوث ہیں اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح عوام کو بتانا چاہتا ہے کہ استعماری افواج کو مزید ٹہرنا چاہیے،اور ساتھ ساتھ اپنی ذاتی مفادات کے لیے عالمی حمایت کا حصول بھی چاہتا ہے۔

ایسا بھی کہا جاتا ہےکہ یہ کابل انتظامیہ اور اس کے بیرونی آقاؤں کا مشترکہ سازش ہے،جسے مخالفین کے خلاف ایک آلہ طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سنیچر کےروز صوبہ بدخشان میں کابل انتظامیہ کی بڑے اہلکار اشرف غنی کا خطاب کہ “مسلح طالبان، افغان حکومت اور عالمی دہشت گردوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں”۔ یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ دلخراش واقعات سے اپنے مذموم اہداف کے حصول کا فائدہ اٹھاتا ہے۔

یہ عجیب غیر منطقی دلیل ہے :ہم کیوں امریکی جارحیت کے سامنے جھکے اور کٹھ پتلی انتظامیہ کا انتخاب کریں؟ کیا اس منطق کا مطالبہ سرنڈر ہونے کا نہیں ہے؟ ہم جو مقدس جہاد کے سیدھے اور مقدس راہ پر چل رہے ہیں، اس جارحیت اور قبضے کا خاتمہ چاہتے ہیں، جو افغان عوام کے تمام بدبختیوں کا سرچشمہ ہے۔ ہم نے بار بار کہا ہے کہ افغانستان تمام افغانوں کا گھر ہے، ہمسائیوں سمیت تمام ممالک کو تسلی دی ہے کہ یہ ملک(افغانستان) کسی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔ یہ کہ امریکی کی جانب سے مؤظف شدہ انتظامیہ مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے، یہ وہی امریکی پرانا طریقہ کار ہے، جسے وہ استعمال کررہا ہے۔ افغان عوام گواہ ہیں، کہ استعمار نے اس نوعیت کے منحوس پروپیگنڈوں کے نتیجے میں لاکھوں افغانوں کو مار ڈالے، اور اب تک مظلوموں کی خون پیاسے ہیں اور ان کے قتل و قتال کو جاری رکھتا ہے۔