جنگ بندی اور قیدی

آج کی بات دوحہ معاہدے کے تحت یہ عہد کیا گیا تھا کہ جب بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے، تو تین ماہ میں باقی قیدیوں کو بھی رہا کردیا جائے گا۔ یعنی 5000 مذاکرات شروع ہونے سے پہلے اور باقی ماندہ قیدیوں کو مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے بعد رہا کردیا جائے گا۔ […]

آج کی بات

دوحہ معاہدے کے تحت یہ عہد کیا گیا تھا کہ جب بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے، تو تین ماہ میں باقی قیدیوں کو بھی رہا کردیا جائے گا۔ یعنی 5000 مذاکرات شروع ہونے سے پہلے اور باقی ماندہ قیدیوں کو مذاکرات کا عمل شروع ہونے کے بعد رہا کردیا جائے گا۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ایوان صدر کی رکاوٹوں کی وجہ سے مذاکراتی عمل کے طریقہ کار میں تاخیر آئی لیکن اب جبکہ اس طریقہ کار پر مثبت پیشرفت ہوئی ہے اور مشترکہ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے، یہ دوسرا اقدام ہے جو امارت نے اٹھایا، اب دوسرا قدم امریکہ اور فریق مخالف کو اٹھانا چاہئے اور باقی قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ اس عمل کو آگے بڑھایا جاسکے۔
جیسا کہ گزشتہ روز کابل میں امریکی سفیر شارز دافیر نے ایک آن لائن پریس کانفرنس میں اس بات کی تائید کی کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد ہونا چاہئے، امارت اسلامیہ کا مؤقف پہلے دن سے یہی ہے کہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔
تاہم کابل انتظامیہ اور اس کے دیگر متعلقہ حکام کی جانب سے باقی قیدیوں کی رہائی کو جنگ بندی سے جوڑا جارہا ہے۔ حالانکہ قیدیوں کی رہائی کا معاملہ دوحہ معاہدے کا ایک اہم نکتہ ہے جب کہ جنگ بندی اس کا نکتہ نہیں ہے، البتہ جنگ کی شدت میں کمی اس کا حصہ ہے، امارت اسلامیہ کی جانب سے گزشتہ برسوں کی نسبت فی الحال جنگ کی شدت میں بہت لائی گئی ہے۔ اگرچہ فریق مخالف جنگ کی شدت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے لیکن اس میں حقیقت نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ بندی بین الافغان مذاکرات میں گفتگو کا موضوع بن سکتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کو بین الافغان مذاکرات کے عمل میں بطور دباو استعمال کرنا چاہئے جو واضح طور پر دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کابل انتظامیہ ایک بار پھر سے امن عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، جنگ بندی (جو بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا ہے) کو قیدیوں کی رہائی کے ساتھ (جو دوحہ معاہدے کا ایک حصہ ہے) منسلک کیا جاتا ہے۔
کابل انتظامیہ کی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ قیدیوں کی رہائی امن کے مفاد میں نہیں ہے، اس سے قبل ایوان صدر کے ترجمانوں نے کہا تھا کہ طالبان کے 7000 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ قبل از وقت ہے۔
حالانکہ امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے 5 دسمبر کو دوحہ میں زلمی خلیل زاد اور امریکی وفد کے ساتھ ملاقات میں قیدیوں کی رہائی اور بلیک لسٹ کے خاتمے کا معاملہ اٹھایا اور ان کے ساتھ سنجیدگی سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا، کابل میں راس ولسن کی گفتگو اسی بحث کی تصدیق کرتی ہے۔
ضروری ہے کہ تمام فریقین امن عمل کی کامیابی کے لئے دوحہ معاہدے میں کئے گئے وعدوں کی پاسداری کریں اور فوری طور پر اس پر عمل درآمد کریں، اس کے خلاف رکاوٹیں پیدا کرنے کی سوچ نہ کریں جو در حقیقت امن کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش سمجھتی جاتی ہے۔