شہروں کے امن کو کس نے لوٹ لیا ؟

ہفتہ وار تبصرہ چند دنوں سے سوشل میڈیا میں گرم ترین موضوع یہ ہے کہ دارالحکومت کابل شہر سمیت افغانستان کے اکثر شہروں میں چوری، لوٹ مار، قتل اور اغواء کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے ناامن علاقہ چوری کی وجہ سے کابل شہر ہے، جہاں دن دیہاڑے عوام سے گاڑی، نقدی، موبائل […]

ہفتہ وار تبصرہ
چند دنوں سے سوشل میڈیا میں گرم ترین موضوع یہ ہے کہ دارالحکومت کابل شہر سمیت افغانستان کے اکثر شہروں میں چوری، لوٹ مار، قتل اور اغواء کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ سب سے ناامن علاقہ چوری کی وجہ سے کابل شہر ہے، جہاں دن دیہاڑے عوام سے گاڑی، نقدی، موبائل اور دیگر قیمتی اجناس چھین لیے جاتے ہیں۔ ڈاکو چند پیسے کے لیے عوام کو مار ڈالتے ہیں۔ ڈاکو اور لوٹ مار عناصر شہر میں سرعام گھومتے ہیں اور جو مرضی اسے انجام دیتا ہے۔
کابل کے علاوہ دیگر بڑے شہروں میں بھی لوٹ مار کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔ چند روز قبل اہلیاں نے قندوز نے اس وجہ سے احتجاج کیا کہ شہر کے وسط میں دکانوں کو لوٹے اور قیمتی اجناس کو چوری ہوجاتے ہیں۔
شہروں میں لوٹ مار کے واقعات میں ایسے وقت میں اضافہ ہوا ہے کہ شہر کے بندوبستی علاقے جہاں امارت اسلامیہ کا کنٹرول ہے، وہاں لوٹ مار اور چوری کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہے۔ جیسا کہ امارت اسلامیہ نے اپنی مکمل حکمرانی کے وران بےمثال امن قائم کیا تھا ، اب بھی شرعی قوانین کے نفاذ کی برکت سے اہل وطن کے لیے تسلی بخش زندگی مہیا کی ہے اور کوئی بھی اپنی جان، مال اور عزت کے متعلق خطرے کا احساس نہیں کرتا۔
افغانستان کے شہروں اور دیہاتوں کے رہائشی ایک ہی ملت ہے، سوال یہ ہے کہ بندوبستی علاقوں میں چوری اور لوٹ مار کیوں نہیں ہے، مگر شہروں میں لوٹ مار کے واقعات ناقابل برداشت درجے تک پہنچے ہیں؟؟؟ اس سوال کا جواب یہ ہےکہ شہروں میں لوٹ مار اور غبن کے حقیقی عامل وہ حکمران ہیں، جو جارحیت کے زیرسایہ شہروں پر مسلط ہیں۔
کٹھ پتلی انتظامیہ کے اکثر حکام کسی نہ کسی طرح چوری، غبن، کرپشن اور لوٹ مار میں ملوث ہیں۔ سیاسی رہنما اعلی سطح پر لوٹ مار کررہے ہیں، بینکوں کو لوٹ رہے ہیں، قومی فنڈ کے رقم کو چوری کررہے ہیں، زمین کو غصب کررہے ہیں وغیرہ بڑی چوریاں انجام دےرہے ہیں۔ مگر نچلی سطح کے حکام کا ڈاکوؤں اور رہزوں کے منظم گروپ ہیں، جو بندوق کی نوک پر نہتے عوام سے قیمتی اجناس ہتھیا رہے ہیں۔
کابل اور دیگر شہروں کے باشندے شکایت کررہے ہیں، کہ پولیس کے سامنے ڈاکو چوری کرتا،مگر پولیس انہیں کچھ نہیں کہتی اور اگر ڈاکو عوام کی جانب سے پکڑا جائے اور حکام کے حوالے کیا جائے، تو چند کے بعد دوبارہ رہا اور چوری کرتا رہتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہروں میں ڈاکہ زنی کا مافیا کوئی معمولی بحران نہیں ہے، بلکہ ا سے کرپٹ حکام کی مضبوط حمایت ہے۔ حکام لوٹ مار اور چوری میں ان کے ساتھ برابر کے شریک ہے،اسی لیے اتنی جرائت اور دن دیہاڑے عوام کو قتل، ان کے اموال کو لوٹ کر کسی سے خوف کا احساس نہیں کرتا۔ کرپٹ انتظامیہ کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف نمائشی کاروائیاں صرف اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ عام شہروں کو دھوکہ کریں اور اپنے مجرمانہ اعمال پر پردہ پوشی کریں۔
امارت اسلامیہ کا نظریہ ہے کہ وہ نظام کبھی بھی عوام کو پرامن زندگی کا ماحول مہیا نہیں کرسکتا، جو سر سے پاؤں تک کرپشن میں غرق اور عالمی سطح پر چوری اور غبن کا امتیاز حاصل کرلیا ہو۔ جس نظام کے وزیر اور رکن پارلیمان لاکھوں ڈالر کی چوری کا احساس تک نہیں کرتا، تو اس نظام کی پولیس اور نچلی سطح کے عہدیدار معمولی چوری پر کس شرم کا احساس کریگا۔ مذکورہ جرائم کے روک تھام کا واحد طریقہ یہ ہے کہ نظام کی گہری اور بنیادی طور پر اصلاح اور فاسدوں پر شرعی عدالت لاگو کیا جائے۔