صوبہ بلخ اور مسلمانوں کی پہلی مسجد!

  تحریر: ذبیح الله “نوراني” ترجمہ: سیدعبدالرزاق افغانستان نے تاریخ کے طول وعرض میں اپنے تاریخی افسانوں، داستانوں، تہذیب اور تمدن ،ثقافتی مراکز اور قدیم تاریخی مقامات کے وجود کے ساتھ اپنی تاریخی اور قدیم قدر برقرار رکھی ہےـ افغانستان ہر شہر اور صوبہ میں متعدد قدیم اور تاریخی مقامات اور مراکز رکھتا ہےـ جو […]

 

تحریر: ذبیح الله “نوراني”

ترجمہ: سیدعبدالرزاق

افغانستان نے تاریخ کے طول وعرض میں اپنے تاریخی افسانوں، داستانوں، تہذیب اور تمدن ،ثقافتی مراکز اور قدیم تاریخی مقامات کے وجود کے ساتھ اپنی تاریخی اور قدیم قدر برقرار رکھی ہےـ
افغانستان ہر شہر اور صوبہ میں متعدد قدیم اور تاریخی مقامات اور مراکز رکھتا ہےـ جو اسلام اور میلاد سے بھی ہزاروں سال پہلے کی تاریخ رکھتے ہیں ـ
افغانستان اپنے قدیم مقامات اور طویل تاریخی آثار کے ساتھ ساتھ ٹرانزیٹ کا قدیم مرکز بھی رہا ہےـ جو یورپ اور شمالی ایشیا سے تجارتی اموال جنوبی ایشیا بھیجتا تھا ـ تاریخ میں “راہِ ابریشم” کے نام سے ایک مشہور شاہراہ کا نام بھی اسی سلسلہ میں درج ہےـ جس کے بہت سارے تاریخی مقامات بہت سارے شہروں میں ابھی محفوظ ہیں جہاں تاجر برادری کے لوگ پڑاو ڈالتے تھے اور آرام کرتے تھے اور تاریخ کی کتابوں میں “کاروان سرای” کے نام سے ثبت شدہ ہیں ـ
اس تاریخی اور قدیم شاہراہ کے بعض مقامات، تاریخی آثار اور قدیم چھوٹے چھوٹے شہر جو اسلام سے پہلے کی صدیوں سے چلے آرہے ہیں صوبہ بلخ میں آج تک موجود ہیں ـ جن کی برکت سے صوبہ بلخ کو “أم البلاد، قبة الإسلام ” اور دیگر تاریخی اور افتخاری ناموں سے نوازا گیا ہےـ
صوبہ بلخ کے بارے میں بیشتر تاریخ دانوں اور قدیمی آثار کے ماہرین ہزاروں سال کی تاریخی داستانوں اور قدیم ثقافتوں کے بارے میں بہت ساری دلچسپ حکایتیں بیان کرتے ہیں ـ ان ثقافتوں کے علامات اور تاریخی عمارتوں کی نشانیاں اب بھی موجود ہیں ـ اسلامی دنیا کے مشہور سیاح اور مؤرخ ابن بطوطہ نے بھی اپنی کتاب میں بلخ کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہےـ اور یہیں پر مشہور صحابی حضرت عکاشہ کے مقبرہ کی تصدیق بھی فرمائی ہےـ
اسلامی تاریخ کا ایک عظیم افتخار جو صوبہ بلخ کی عظمت اور منزلت کو مزید چار چاند لگاتا ہے وہ “نُہ گنبد” نامی مسجد ہےـ جسے علاقہ کے لوگ “حاجی پیادہ ” کے نام سے یاد کرتے اور جانتے ہیں ـ
یہ تاریخی مسجد جس کا تاریخی سابقہ ۱۳۰۰ سال تک پہنچتا ہے اور تاریخی شواہد کی بنیاد پر اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد افغانستان اور آس پاس کے علاقوں میں مسلمانوں کی سب سے پہلی مسجد ہےـ آج بھی اس مسجد کی پرانی دیواریں،ستون اور دیگر آچار بزبانِ حال گواہی دے رہے ہیں کہ اس پر کم از کم تیرہ صدیاں بیت چکی ہیں ـ “نہ گنبد” کی یہ مسجد، مزارشریف شہر کے مغربی سمت میں بیس کیلو میٹر کے فاصلہ پر، مزار شریف اور جوزجان شہر کے عمومی شاہراہ ضلع بلخ کے مضافاتی علاقہ محمدگل خان چوک کے بالمقابل تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہےـ
اس مسجد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام سے قبل یہاں زرتشت مدذہب کا سب سے بڑا عبادت خانہ اور آتشکدہ قائم تھاـ یہ مسجد سن ۱۷۹ ھ ق میں مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کی طرف سے خراسان کے لئے مقرر شدہ گورنر فضل بن یحیی برمکی کی جانب سے تعمیر کی گئی ـاس وقت کی تعمیر کے بعض حصے اور ستون آج بھی قائم ہیں ـ
“نُہ گنبد” مسجد کے لئے جو ۲۲ جریب زمین اس آثار قدیمہ کے احاطہ کے طور پر مختص کی گئی تھی وہ آج بھی بدستور محفوظ ہےـ جس کے اندر ۳۹۰ مربع میٹر پر آج بھی مسجد قائم ہےـ
اس مسجد کے ۱۶ ستون ہیں ـ جن میں ۱۰ ستون دیواروں کے لئے ہیں اور ۶ مسجد کے درمیان چھت کو سہارا دینے کے لئے ہیں ـ اور انہیں ستونوں پر وہ نو گنبد قائم ہیں جن کی وجہ سے مسجد کا نام ہی “نُہ گنبد” ہوگیا ہےـ
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ یہ مسجد اسلام سے قبل آتشکدہ تھی اور بعد میں ہارون الرشید کی خلافت کے زمانہ میں خراسان کے گورنر فضل بن یحیا برمکی کی جانب سے اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیاـ یہ سرزمینِ خراسان میں (جو افغانستان کے صوبہ بلخ کے جغرافیہ میں آتا ہے) سب سے پہلی مسجد شمار کی گئی ہےـ
اس مسجد کی تزئین کے لئے گچ اور دیگر مواد سے کام لیا گیا ہےـ ساتھ ہی تزئین کے لئے انگور کے بیلوں، پتوں، صنوبر اور کھجور کے پتوں کی شکلیں ڈیزائن کی گئی ہیں ـ جو اسلام کے قدیم زمانہ پر دلالت کرتی ہیں اور اسلام کی قدامت کی شاہد ہیں ـ
اس مسجد کے انہدام کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں ـ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ مسجد پہلی ہجری قمری صدیوں میں شدید زلزلہ کی وجہ سے پورے شہر سمیت منہدم ہوگئی تھی ـ اور بعض مؤرخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مسجد چنگیزخان کے حملہ کے وقت اس کی افواج کی جانب سے مسمار کردی گئی تھی ـ
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ یہ مسجد انہدام کے بعد دوبارہ نئے سرے سے کیوں نہیں تعمیر ہوئی ہے؟ تو اس بارے میں بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ مسجد پہلے سے آتشکدہ تھا اور اس وقت کے علماء کی نظر اور رائے یہ تھی کہ اس مسجد کی تعمیرِ نو کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ اس مسجد کا علاقہ ایک غیر آسمانی دین کی تاریخ سے جڑا ہوا ہےـ
اس تاریخی تعمیر کی حفاظت کے لئے ہر زمانہ میں مقتدر حلقوں نے مقدور بھر کوشش کی ہےـ آخری دفعہ افغانستان کے مشہور حکمراں داؤد خان کی جانب سے ۱۳۵۲ ھ ش میں اس مسجد کے لئے لوہے سے بنی چھت تشکیل دے دی گئی ـ تاکہ ہوا اور بارشوں سے محفوط رہےـ پھر ۱۳۸۴ میں مملکتِ فرانس کے آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی جانب سے ایک خاص طرز سے پوشاک دی گئی تاکہ سخت ہوا کے دوران ہر طرح کے مضر گرد وغبار سے بچا رہےـ اور ہوا صرف مسجد کے اندرونی حصہ تک جائےـ لوہے کی بنی وہ چھت اور پوشاک اب بھی برقرار ہےـ