عمر ثالث کچی بستی سے امارت تک !

تحریر : امین وردگ اس  بچے   کی زندگی  کے مختصر حالات ملاحظہ فرمائیں جس نے 1339 ھ ش کو کندھار کے  ضلع خاکریز میں  ” چاہِ ہمت ” نامی گاوّں میں میں آنکھ کھولی۔ 5 سال کی  عمر بچپن میں ہی  اپنے   محترم والد ماجد کے سایہ سے محروم ہوئے، خاکریز کی کچی  بستیوں میں […]

تحریر : امین وردگ
اس  بچے   کی زندگی  کے مختصر حالات ملاحظہ فرمائیں جس نے 1339 ھ ش کو کندھار کے  ضلع خاکریز میں  ” چاہِ ہمت ” نامی گاوّں میں میں آنکھ کھولی۔ 5 سال کی  عمر بچپن میں ہی  اپنے   محترم والد ماجد کے سایہ سے محروم ہوئے، خاکریز کی کچی  بستیوں میں وقت  گذارنے کے ساتھ جب والد صاحب کی  یاد ستانے لگی تو  یہاں سے کوچ کر جانے کا فیصلہ کیا اور  کندھار کے ضلع ڈنڈ میں  کچھ وقت کیلئے  آباد ہوئے، لیکن یہاں بھی  ان کے رزق کا انتظام ختم ہوا  تھا۔ اس کے  بعد  آپ  صوبہ  روزگان میں  اپنے چچا محترم مولوی  جمعہ کے ہاں  رہنے لگے، اور ان سے  دینی تعلیم حاصل کرنے  کے سلسلے کا آغاز کیا۔ 18 سال کی عمر میں آپ دورہ  حدیث کے قریب پہنچ گئے۔ لیکن اس وقت  افغانستان پر سویت یونین  [روس] نے کمیونسٹ کٹھ پتلیوں  کی  مدد  سے حملہ کیا۔  افغان مجاہدین مقابلے  کیلئے میدان میں اترنے  کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ان سر فروش مجاہدین میں مولوی  غلامی نبی کے فرزند عمر  بھی شامل  تھے، لیکن کچھ عرصہ تک   روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت کے بعد  آپ اپنے آبائی علاقے کندھار  تشریف لائے۔ پنجوائی، میوند اور ژڑئ اضلاع میں  روسی اور کٹھ پتلی کمیونسٹ دشمن پر حرکت انقلاب اسلامی نامی جہادی تنظیم  کی قیادت میں  بے شمار حملے کئے، اور یہاں آپ ایک بہادر کمانڈر کے طور پر  مشہور ہوئے۔  آپ سویت یونین کے خلاف لڑتے ہوئے چار  مرتبہ زخمی  ہوئے جس میں چوتھی  مرتبہ اپنی داہنی  آنکھ بھی  اللہ کی راہ میں  قربان کی۔
جب کمیونسٹ نظام ختم اور روس شکست کھا کر بھاگ نکلا اور اقتدار مجاہدین کے قبضے میں آگیا تو ” مجاہد عمر” نے کندھار کے ضلع سنگ حصار میں اپنی دینی تعلیم کا سلسلہ  ایک مرتبہ پھر شروع کیا۔ لیکن عین اسی وقت باہمی  اختلافات نے سر اٹھا لیا او ر  یہی  افراد آپس میں دست و گریبان ہوئے۔ اس  بے نتیجہ لڑائیوں  اور اختلافات سے بیت المال سے چوری،لوٹ مار اور لوگوں کے حقوق غصب  ہونا شروع ہوئے۔ جب یہ سلسلہ  حد سے تجاوز کر گیا  تو   “عمر” کے صبر کا پیمانہ  لبریز ہو ا، دینی  علوم کی  بجائے فساد کو جڑ سے اکھاڑ نے کو  ترجیح دی۔ اور دینی علماء کے فتاویٰ کے مطابق باغی کمانڈروں کے خلاف   ایک مرتبہ پھر اسلحہ اٹھا لیا۔ کندھار سے اس جدوجہد  کا آغاز ہوا۔ یہاں اس  تحریک کو ” اسلامی  تحریک” کا نام دیا گیا۔ یہاں  1500 علماء کرام  کے ایک شوریٰ نے انہیں  امیرالموّمنین کا لقب  دیا۔
ان کا مشن اسلامی  نظام  کی  حاکمیت تھی، جنگ میں  مخالف سمت کے افراد کو عام معافی اور توبہ کرنے کی  تلقین کرتے۔ جنگ کے دوران مخالف سمت کے جنگجوّوں سے اسلحہ لیتے اور انہیں چھوڑ دیتے ،یہاں  تک کہ 1375 ھ ش   میزان کی  چھٹی  تاریخ کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے،لیکن یہ وہی کابل  نہیں جو جہادی  تحریکوں سے قبل تھا بلکہ اب  کابل  کھنڈرات میں  تبدیل ہو چکا تھا۔
 کچھ محدود علاقوں کے سوا  پورے   افغانستان پر امارت اسلامی نے شرعی قوانین نافذ کئے۔  لیکن 15/06/1379 ھ ش کو یہ نظام امریکا سمیت 44 ممالک کی اتحادی جارحیت  کے نتیجے میں ختم کردیا گیا۔ ان حملوں میں  امارت اسلامی کے خلاف کئی ممنوعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے۔ کچھ رہنماوّں کو  افغانستان اور پاکستان کے زرخرید غلاموں نے  گرفتار کرکے امریکا کے  حوالے کیا۔ جنہیں کیوبا کے بدنام زمانہ عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا، اور کئی رہنماوّں کو  ملک کے اندر بگرام جیل کی  آہنی سلاخوں کے  پیچھے دھکیل  دیا گیا۔ جس کے  تمام اختیارات امریکا کے  پاس ہیں۔ اور کسی افغانی  اہلکار کو یہاں  جانے کی اجازت  نہیں۔
مختصریکہ  کہ دو سال کے عرصے میں   ملا محمد عمر مجاہد نے ایک  مرتبہ پھر  اپنے ساتھیوں کو منظم کیا،  اور مغربی اتحادی فورسز کے خلاف فیصلہ کن معرکے کا آغاز کیا۔ اور انہیں ایسا دندان شکن سبق دیا جو  ان کی  نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔
خاکریز میں پیدا ہونے والے اس  مر د قلندر   کو  اللہ  تعالیٰ نے کچھ  انفرادی خصوصیات دے  رکھی تھیں جو دوسرے انسانوں میں نہیں  ملتی۔
۱۔جہاد میں R.P.G راکٹ خود  فائر کرتے۔
۲۔ نہایت سادہ لوح، خوش اخلاق اور رحم دل تھے۔
۳۔آپ متقی اور شریف النفس انسان  تھے۔
۴۔  اپنی تعریف کو عیب تصور کرتے تھے۔
۵۔  ہر شخص کو ملاقات کی اجازت دیتے تھے[حالانکہ   قریبی ساتھی آپ کے اس عمل  کو آپ کی شخصیت کیلئے خطرہ قرار دے  ہرے تھے] اور بالآخر حالات کے  پیش نظر امیر الموّمنین بہت کم منظرِ عام پر آتے تھے۔  ان کا یہ فیصلہ  اس وقت درست ثابت  ہوا جب مغرب نے ان کے  سر کی  قیمت  دس ملین امریکی  ڈالرز مقرر کی۔ اس کے  بعد  انہوں نے  بالکل   منظر عام پر آنا پسند نہیں کیا۔ لیکن  اپنے کچے سے کمرے میں  اللہ کے قانون کو  زمین پر  نافذ کرنے کیلئے اپنے ساتھیوں کی کمان سنبھالے  رکھی اور الہی احکامات کے مطابق اپنی مسئولیت  ادا کرتے  رہے جس سے جہادی محاذ روز افزوں  ترقی کرتی گئی۔
۶۔ تہجد ان کا  پسندیدہ  عمل تھا۔
۷۔سادہ لباس زیب تن کرتے،  آپ اور آپ کے ساتھیوں میں کوئی امتیازی فرق نظر نہیں آتا تھا۔
۸۔سادہ غذا کھاتے تھے۔
۹۔ زمین پر سوتے تھے لیکن ان  کے  حکم کی  پورے افغانستان میں فوراً تعمیل ہوتی تھی۔
۱۰۔ بادشاہ تھے لیکن  زندگی بادشاہوں کی  طرح نہیں گذاری، بلکہ ساری زندگی اللہ کی   راہ میں وقف کردی تھی۔
۱۱۔ دنیا کی لذتوں کو  خیر  باد کہہ چکے تھے۔ صرف اسلامی نظام کی حاکمیت کی خاطرجدوجہد کرتے رہے۔
۱۲۔ صحابی نہیں تھے لیکن  زندگی صحابہ کرام  کی  طرح گذاری۔
۱۳۔  آخر   میں امارت اپنے نائب ملا اختر محمد منصور کو سونپ دی۔ اور اپنے بیٹے  مولوی محمد  یعقوب کو  اپنا جانشین نہیں  بنایااس طرح امارت کو  وراثت کی نذر نہیں  ہونے دیا، جس امارت کی بنیاد ہی   انہوں نے  رکھی تھی۔
۱۴۔  اتنے بڑے اقتدار کے باوجود اپنے بچوں کیلئے نہ کوئی جائیداد چھوڑی نہ امارت نہ کوئی مارکیٹ   نہ دکان وغیرہ۔
بالآخر تمام دشمنوں کی  تمنائیں خاک میں ملاتے ہوئے  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی  طرح طویل  جہادی خدمات کے بعد اپنی  کچی کوٹھی میں  جان جانِ آفرین کے سپر کردی۔
انالله و انااليه راجعون.