عوامی مصائب اور ذرائع ابلاغ کا غیرمنصفانہ رویہ

افغانستان پر امریکی جارحیت کا سترواں سال جاری ہے، اس حساب سے یہ جنگ جیسا کہ امریکی تاریخ میں سے طویل لڑائی ہے، تو ہمارے ملک اور عوام کے لیے بھی ایک طویل المیہ اور ابتلاء تصور کی جاتی ہے۔ اس جنگ میں امریکی استعمار اور اس کے داخلی حواری افغان مظلوم ملت کے خلاف […]

افغانستان پر امریکی جارحیت کا سترواں سال جاری ہے، اس حساب سے یہ جنگ جیسا کہ امریکی تاریخ میں سے طویل لڑائی ہے، تو ہمارے ملک اور عوام کے لیے بھی ایک طویل المیہ اور ابتلاء تصور کی جاتی ہے۔ اس جنگ میں امریکی استعمار اور اس کے داخلی حواری افغان مظلوم ملت کے خلاف مختلف النوع اسلحہ اور جنگی آلات سے فائدہ اٹھارہا ہے۔ بمباری، ڈرون حملے، رات کے چھاپے میزائل حملے ، نہتے افراد کا قتل، معذور اور قیدی بنانا وہ اعمال ہیں، جو استعمار اور کٹھ پتلیوں کی جانب سے روز  کا معمول بن چکا ہے۔

اگر دنیا میں کسی ملت پر ایسی بدقسمت دن آجاتی ہے،  تو ذرائع ابلاغ اور میڈیا ان کی مظلومیت اور مصیبت کو انعکاس دیتی ہے، ابلاغی ذرائع خصوصی تحقیقات اور مؤثق رپورٹوں کے ذریعے نہتے افراد کی حالت زار دنیا کو پہنچاتی ہے  اور جنگی جرائم کے مرتکبوں کے ظالمانہ چہرے کو  دنیا کے سامنے  رسوا کردیتی ہے۔

مگر افغانستان میں  استعمار کے ہمہ پہلو ظلم کیساتھ ساتھ معاملہ برعکس ہے، یہاں  اس بارے میں میڈیا نے اب تک تحقیقاتی سروے نہیں کی ہے،کہ گذشتہ سترہ سالوں کے دوران امریکہ اور اس کے حواریوں نے افغان مظلوم ملت پر کتنے بم برسائے ہیں اور ان بمباریوں میں کتنے شہریوں کو شہید اور زخمی  اور یا انہیں اپاہج کیے ہیں۔

میڈیا نے  امریکی جنرلوں اور کابل انتظامیہ کے فوجی ترجمانوں کے دیہاتوں، گاؤں اور دور افتادہ علاقوں میں  ہونے والے روزانہ درجنوں کاروائیوں،رات کے چھاپوں  اور  فضائی حملوں میں ہونے والے رپورٹوں کو نظرانداز کردیا ہے ، کہ ان کاروائیوں کے دوران کتنے مظلوم افراد کی زندگی تلف ہوتی ہے، انہیں کتنی تکلیف کا سامنا  ہوتا ہے۔شک کے بنیاد پر نہتے شہری مہینوں حتی سالوں تک بگرام اور پل چرخی کے جیلوں میں  پوچھ گچھ کے بغیر پابند سلاسل  پڑے رہتے ہیں۔

اگر ہمارے ملک کی میڈیا درحقیقت عوامی میڈیا  ہوگی ، ملک اور عوام سے  وفادار رہیگی،تو بڑے شہروں سے دور  ان لاکھوں افغانوں کا پرساں حال بھی کرتا،جن پر امریکی بدمعاش روزانہ مختلف النوع اسلحہ، بارود اور میزائلوں کے تجربے کرتے رہتے ہیں۔رات کی تاریکی میں ان کے گھروں کو تباہ ، تلاشی کے نام پر لوٹ مار، گھروں کو مارٹرگولوں سے نشانہ بناتے ہیں، سرعام ان کی توہین کی جاتی ہیں اور معاشرے کے معزز افراد علماء کرام اور قبائلی عمائدین کو دہشت گرد کے نام سے اذیت پہنچاتے ہوئے انہیں عقوبت خانوں  میں ڈلوائے جاتے ہیں۔

مذکورہ جرائم کے باوجود اب استعمار اور اس کے حواری غلاموں نے دیگر قسم کی جرائم کو اپنائے ہوئے ہیں، وہ یہ کہ دیہاتی علاقوں میں عوامی بازاروں ، صحت کے مراکز اور مدرسوں کو تباہ کررہے ہیں، دیہی علاقوں پر بجلی منطقع کررہی ہے اور امارت اسلامیہ کے زیر کنٹرول علاقوں میں تعمیرنو کے ہرقسم کی حرکت کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہاہے  اور فضائی حملے اور تخریبی کاروائیوں کے ذریعے تباہی کو پروان چڑھا رہا ہے۔

افغان سرزمین کے اکثر رقبے پر امارت اسلامیہ کا کنٹرول ہے اور وہاں رہائش پذیر عوام  غاصب امریکہ کی جانب سے ایسی روزانہ کاروائیوں کی  وجہ سے سرکوب ہورہے ہیں،ان کی جان و مال محفوظ نہیں  اور زندگی کی تمام سہولتوں سےانہیں محروم کیا جارہا ہے،مگر افغانستان میں سرگرم ملکی و غیرملکی میڈیا ان ظالمانہ اعمال کے متعلق صرف اور صرف ان اعلامیوں اور تبصروں کو نشر کرتے رہتے ہیں، جنہیں استعمار کی جانب سے ابلاغ کیے جاتے ہیں۔

اگر عالمی ذرائع ابلاغ حقیقی طور پر اپنے پیشے اور ضمیر  کو جوابدہ اور ملکی میڈیا درحقیقت افغان عوام کی مصیبت اور غم میں خود کو ہمدرد سمجھتی ہے، تو ان کے لیے لازم ہے کہ استعمار اور اس کے ملکی غلاموں کی جانب سے انجام ہونے والی کارائیوں اور جرائم کے  بارے میں منظم تحقیقات کریں، تاکہ افغان اور عالمی برادری سمجھ جائے، کہ یہاں دہشت گردی کے تحت ہونے والی لڑائی کے سلسلے میں جو مظالم رونما ہورہے ہیں  اور جمہوریت لاگو کرنے والے آئے روز افغان عوام کو  کس قسم کی مصائب اور مشکلات سے دوچار کررہے ہیں۔

امارت اسلامیہ تمام ذرائع ابلاغ سے مطالبہ کرتی ہے کہ اس مد میں اپنی رسالت کو ادا کریں اور افغان مظلوم اور بمبار زدہ عوام کی مظلومیت کو  انعکاس دے۔ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ امریکہ کی جانب سے روزانہ رونما ہونے والے کاروائیوں اور حملوں کے متعلق صرف ان کی رسمی پریس ریلیز کو کافی نہ سمجھے، بلکہ براہ راست جنگی حالت کا جائزہ لے اور  عوامی مصائب کا مشاہدہ کرنے کے  بعد انہیں دنیا تک پہنچا دیں۔