مساجد میں دھماکے دشمن کی سازش ہے

رواں ماہ اکتوبر کی 20 تاریخ کو  کابل اور غور کے مساجد میں دھماکے بہت دلخراش حادثے تھے،جس نے تمام قوم کو غمزدہ کردیا۔ امارت اسلامیہ اس طرح حادثات کی پرزور مذمت کرتی ہے  اور اسے خفیہ و آشکار دشمنوں کی منصوبہ ساز  سازش  سمجھتی ہے ،جو  اس طریقے سے  افغانستان میں فرقہ وارانہ جنگ […]

رواں ماہ اکتوبر کی 20 تاریخ کو  کابل اور غور کے مساجد میں دھماکے بہت دلخراش حادثے تھے،جس نے تمام قوم کو غمزدہ کردیا۔ امارت اسلامیہ اس طرح حادثات کی پرزور مذمت کرتی ہے  اور اسے خفیہ و آشکار دشمنوں کی منصوبہ ساز  سازش  سمجھتی ہے ،جو  اس طریقے سے  افغانستان میں فرقہ وارانہ جنگ شروع کرنا چاہتی ہے  اورجارحیت سے عوام کی توجہ کسی اور جانب مبذول کرواتی ہے۔  موجودہ جہادی سلسلے کو بدنام کرنے کی خاطر ایک منحوس کوشش ہے اور حقیقی مجاہدین اس سے مبرا ہیں۔

اظہر من الشمس ہے   ہسپتالوں، مساجد اور مظاہروں میں  جو افراد دھماکے کرواتے اور کروارہے ہیں، یہ سب کابل انتظامیہ کے اعلی حکام کے مطابق اسی انتظامیہ کے ایوانوں میں تربیت پاکر لیس کیے جاتے ہیں۔ اس حکمت عملی کو وہ مؤثر سمجھتی ہے اور کہتے ہیں کہ اب اس طرح افراد کو منظم کرنے سے طالبان کا روک تھام کرینگے، بعد میں ان کیساتھ محاسبہ کرینگے۔ مگر ماضی کو دیکھتے ہوئے استعمار اور اس کے حواریوں کے تمام قبیح کرشمے ہمیشہ ان ہی کے گلے میں پڑ  چکے ہیں،وہ عوام کے سامنے شرمندہ ہیں۔  یہ وہی استعمار اور اس کے داخلی حواری ہیں، جو اس طرح کرتوتوں سمیت کسی قسم ناروا سے روگردانی نہیں کرتے۔ نہتے افغانوں کو گہرے نیند میں شہید کرتے ہیں،رات کے حملوں، بمباریوں  اور ڈرون ٹارگٹ کلنگ میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔ جان بوجھ کر جنگ میں شدت لارہی ہے،لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ عوامی غیض وغصب لشکر سے نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو  ڈیڑھ عشرہ قوت آزمائی کافی ہوتی، جو مقصد کو حاصل کرسکتی، مگر عملی طور پر مشاہدہ کررہے ہیں فی الحال افغانستان کی نصف آبادی سے زیادہ عوام امارت اسلامیہ کے زیرکنٹرول علاقوں میں رہائش پذیر ہے، جو استعمار اور کابل انتظامیہ کیساتھ عملی طور پر جنگ میں مصروف ہے۔

ہم کابل انتظامیہ کے حکام کو بتانا چاہتے ہیں کہ اپنی عوام سے اجنبی اسلحہ کے بل بوتے لڑنا کونسی بہادری ہے، جس کے لیے سینہ کوبی کرتے ہو اور بعد میں ناکامی بھی تمہاری ہی ہے؟ظاہری طور پر صلح کے گن گاتے ہو، مگر عملی طور پر جنگ کے اسباب کو مہیا کرتے ہو۔ اگر حقیقی طور پر صلح کے خواہاں ہو، تو ضروری ہے کہ سب سے پہلے ان اسباب کو ختم کردو، جو افغانستان کے امن کو تباہ کرتا ہو اور تمہیں اچھی طرح معلوم ہیں۔ اگر  پھر بھی اپنی بقاء کو امریکی نئی پالیسی  اور اس کے موجودگی میں دیکھ رہے ہو  اور جارحیت کے دوام کے لیے بہانے ڈھونڈتے ہو،  تو ملک میں جنگ اور اس کے برے اثرات کی ذمہ داری تم ہی پر ہے۔ عوام کی فیصلے سے فرار ہوسکتے ہو اور نہ ہی تاریخ سے !