ملک سے نوجوانوں کا فرار ایک عظیم المیہ ہے

جب 2001ء  کو امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کی، تو  اس کے داخلی حامی بہت خوش تھے۔ افغان عوام کو زرعی، صنعتی اور دیگر معاشی شعبوں  میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی  منصوبوں کے متعلق خوشخبریاں سناتے  رہیں اور انہیں پر سکون زندگی کے وعدے دلاتے رہے۔لیکن ڈیڑھ عشرہ کے بعد، 2015ء کو  عالمی سروے کی […]

جب 2001ء  کو امریکہ نے افغانستان پر جارحیت کی، تو  اس کے داخلی حامی بہت خوش تھے۔ افغان عوام کو زرعی، صنعتی اور دیگر معاشی شعبوں  میں بڑے پیمانے پر تعمیراتی  منصوبوں کے متعلق خوشخبریاں سناتے  رہیں اور انہیں پر سکون زندگی کے وعدے دلاتے رہے۔لیکن ڈیڑھ عشرہ کے بعد، 2015ء کو  عالمی سروے کی رو سے دو لاکھ تک افغان نوجوان بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے یورپی ممالک جاچکے ہیں،  جو یورپ جانے والے پناہ گزینوں کا 20 فیصد بنتا ہے۔

بدبختی سے اکثر موارد میں وہاں ان کے ساتھ امتیازی  سلوک کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ تیس لاکھ افغان منشیات کے عادی ہیں، جس کی بڑی وجہ معاشی اور سماجی مسائل اور بیرونی ثقافت کا پھیلاؤ ہے۔ افغان عوام کا 40 فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے  اور ملک کا سالانہ معاشی ترقی دو فیصد سے بھی ہے۔یہ ہے جارحیت اور جمہوریت کے دورے میں افغانستان کی معاشی اور سماجی  حالت۔

اسی کی عمدہ وجہ یہ ہے کہ کابل انتظامیہ کے اداروں میں کرپشن عروج کو پہنچا۔ نااہلی کی وجہ سے کابل انتظامیہ اور وزارتیں مختص شدہ بجٹ کا صرف تیس یا چالیس فیصد  خرچ کرتی ہے  ،جبکہ بقیہ رقم بچ جاتی ہے،  مگر یہ مصرف  شدہ رقم بھی انتظامی کرپشن کی وجہ سے اکثر خیالی اور کاغذی طور پر خرچ ہوتی ہے، لیکن درحقیقت   بحٹ طاقتورافراد اور اعلی حکام کے جیبوں تک پہنچتی ہے۔

گذشتہ ڈیڑھ عشرے میں ملک بھر میں پانی کے بڑے ڈیم و ذخائر تعمیر نہیں ہوئے۔ صنعت کے شعبے میں وہ بچے کچے کارخانے بھی بند ہوچکے ہیں،۔ ملک کے دو ہزار تاجروں نے مافیا کی اغواء اور دیگر مسائل کی وجہ سے  گذشتہ کئی ہفتوں کے دوران اپنے تجارتی لائسنوں کو کابل انتظامیہ کو واپس کردی ہے۔ اگرچہ استعمار کہتا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں میں افغانستان میں 35 ارب  سے زیادہ ڈالر خرچ کی ہے، لیکن عملی میدان میں آثار نظر نہیں آرہا، بلکہ ان کا  زیادہ حصہ بیرونی اور ملکی ٹھیکیداروں کے جیبوں میں چلے گئے ہیں۔

عالمی سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں خیالی افواج اور اسکولوں کیساتھ درجنوں خیالی صحت کے مراکز بھی موجود ہیں۔ تنخواہیں اور ادویہ دی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں اسکول اور نہ ہی کلینک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا، کہ اب افغانستان میں ہزاروں بچے عام بیماریوں مثلا اسہال اور نمونیا کی وجہ سے زندگی سے  ہاتھ دھو رہے ہیں اور دس لاکھ  بچے غذائی قلت سے روبرو ہیں۔

لیکن پھر کابل انتظامیہ کے عہدیدار افغانستان میں کامیابی کی باتیں کررہی ہے،مگر اس طرف دھیان نہیں رکھتے ، کہ شفاف کے عالمی تنظیم اور عدالت کے عالمی ادارے کی سالانہ رپوٹوں میں ہمیشہ کرپشن اور عدالت کی عدم موجودگی کی وجہ سے تیسرا، دوسرا اور یا پہلا مقام حاصل کیا ہے۔ یہ مغربی ممالک   کے ادارے کے  ہیں، جو  اس نوعیت کے سروے شائع کررہے ہیں، بلکہ مغربی ایجاد اور اس ہی کی جانب سے انہیں فنڈز فراہم کی جاتی ہے۔

امارت اسلامیہ کے نقطہ نظر سے نااہل اور کٹھ پتلی انتظامیہ کی افعال کی وجہ سے ملک سے نوجوانوں کا فرار، دیگر مسائل کیساتھ ایک عظیم المیہ ہے۔ جو ملک کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ استعمار کے زیر سایہ اہل وطن کا سکون اور ترقی ناممکن ہوئی ہے۔ اسی لیے امارت اسلامیہ ملک کی حقیقی آزادی اور اسلامی نظام کے  قیام کے لیے کمربستہ ہوئی ہے، تاکہ تمام افغانی اپنے گھروں  میں رہ کر  بیرونی ممالک جانے پر مجبور نہ ہوجائیں۔ ان کےاستعداد  اجنبی ممالک کے بجائے اپنے ہی ملک کی ترقی، امن اور خوش بختی کے لیے بروئے لار لایا جائیں  اور وہ بھی اپنے ملک میں آرام، اختراعی اور معزز زندگی بسر کریں۔ ان شاءاللہ