نائن الیون  بہانے کے تحت دہشت گردی

نائن الیون یعنی 11/ستمبر2001ء کے حادثے کا سولہ برس گزرنے کے باوجود اب تک عالمی غیرجانبدار محققین  نے تحقیق کی ہے اور نہ ہی انہیں تحقیقات کرنے کی اجازت ہے، تاکہ اصل عاملین کو کا سراغ لگا دے  اور اس بہانے دنیا میں انسانی قتل عام اور ملک کے قبضے کو ختم کردے۔  امارت اسلامیہ […]

نائن الیون یعنی 11/ستمبر2001ء کے حادثے کا سولہ برس گزرنے کے باوجود اب تک عالمی غیرجانبدار محققین  نے تحقیق کی ہے اور نہ ہی انہیں تحقیقات کرنے کی اجازت ہے، تاکہ اصل عاملین کو کا سراغ لگا دے  اور اس بہانے دنیا میں انسانی قتل عام اور ملک کے قبضے کو ختم کردے۔  امارت اسلامیہ نے ابتداء ہی میں اس حادثے میں ملوث ہونے کی تردید کی، مگر اس کے باوجود حادثے کا سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کو پہنچا ہے۔ ان قرائن سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ  کیا  یہ عالم اسلام میں اسلامی نظام اور آگاہی کی روک تھام کی خاطر بنائے جانے والا بہانہ تھا ؟ اسی لیے امریکہ اور اس کے متحدین نے اسی بہانے کے تحت اسلامی نظام اور افغان عوام کی خودمختاری کو ختم کردی،  قومی اور نسلی اختلافات کو ابھار دیے،ہمارے قدرتی وسائل کو لوٹ رہے ہیں اور ملک کے جیلوں میں وسیع پیمانے پر انسانی خلاف ورزیاں انجام دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ دہشت گردی کے اسی نام کے تحت افغانستان میں اسلامی مقدسات کا توہین ہوا، جنازے اور شادی کی تقریبات پر بمباریاں کی گئیں، اسکولوں کے بچے شہید ہوئے اور افغانی اپنے ہی گھروں میں گہرے نیند سوئے ہوئے خون میں نہلا دیے گئے۔

گزشتہ سولہ برسوں کے دوران وطن عزیز میں دو لاکھ سے زائد افغانی شہید ہوئے،ان میں اکثریت ان بچوں کی ہیں، جنہوں نے نائن الیون کے بعد میں دنیا میں قدم رکھا، مگر اسی خونریز حادثے کے شعلوں میں جل گئے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ افغانستان میں ایک ایسا کرپٹ انتظامیہ سامنے آئی ہے، جو روزانہ افغان عوام کو مختلف ناموں سے زدکوب اور چوس رہے ہیں۔ اقتدار پر صرف اس شخص کو براجمان کیا گیاہے، جو بذات خود اور ان کے خاندان استعماری ممالک کی شہرت کے حامل اور وہاں رہائش پذیر ہیں۔ افغانستان سے ان کا تعلق کم اور اجنبی سے زیادہ ہے۔ ہم عملی طور پر مشاہدہ کررہے ہیں کہ اسی نظام کے زیرسایہ کوئی ارب پتی بن گئے اور کسی کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ۔ ایسی حالت میں امریکہ اپنی سیکورٹی محفوظ کرنے کے بہانے خطے اور افغانستان کے لیے وقتافوقتا نئی پالیسیاں بناتی ہیں، جن میں ان کا بنیادی مقصد جنگ جاری رکھنے کی ہے۔

اب افغان عوام اور دنیا بخوبی سمجھ چکی ہے کہ دہشت گردی اور جمہوریت کے جعلی نعروں سے اقوام دھوکہ میں پڑتی ہے اور نہ ہی افغانستان کوئی نرم نوالہ ہے، جسے استعمار  ہڑپ کرسکے۔

قابل یادآوری ہےکہ فوجیوں کی تعداد بڑھانے والی نئی پالیسی افغان مسئلہ کو طول دے سکتی ہے، مگر حل نہیں کرسکتی۔ ماضی میں بھی ایسی ناکام کوششوں نے نتیجہ نہیں دی ہے۔ برطانیہ اور سوویت یونین کی گزشتہ تاریخ سامنے پڑے ہوئے ہیں۔ واحد راستہ ہے کہ امریکہ اور دیگر استعماری ممالک افغانوں کے گھر کو افغانوں ہی کے لیے چھوڑ دیں اوراگر پرامن طریقے اور افہام وتفہیم کے نتیجے میں راہ حل مل جائے، تو بہتر ہے۔ وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغ