ناکام ملیشیوں کا چرچا

تحریر: سیدعبدالرزاق حالیہ دنوں جبکہ امارتِ اسلامیہ کے جانباز اور سرفراز مجاہدین ملک کے نشیب وفراز میں دن بدن آگے بڑھتے جارہے ہیں ـ شہر در شہر اور علاقوں کے علاقے ان کے زیر کنٹرول آرہے ہیں ـ کل تین سو چھیاسٹھ اضلاع میں سے اس وقت تک آدھے سے زیادہ پر اسلامی پرچم لہرایا […]

تحریر: سیدعبدالرزاق
حالیہ دنوں جبکہ امارتِ اسلامیہ کے جانباز اور سرفراز مجاہدین ملک کے نشیب وفراز میں دن بدن آگے بڑھتے جارہے ہیں ـ شہر در شہر اور علاقوں کے علاقے ان کے زیر کنٹرول آرہے ہیں ـ کل تین سو چھیاسٹھ اضلاع میں سے اس وقت تک آدھے سے زیادہ پر اسلامی پرچم لہرایا جا چکا ہےـ کابل انتظامیہ کے اہلکار جوق در جوق امارتِ اسلامیہ کے زیرسایہ آرہے ہیں اور غلامی پر توبہ تائب ہو کر حقائق کا ادراک کرتے جارہے ہیں ـ دوسری طرف امریکا اور دیگر بیرونی قوتوں کا انخلاء بہت تیزی سے جاری ہےـ اس وقت تک امریکا نے افغانستان میں اپنا سب سے بڑا اڈا بگرام ائیربیس خالی کردیا ہےـ معدودے چند فوجی رہ گئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ظلم ووحشت کا یہ دورہ ختم ہوکر افغانستان تمام بیرونی افواج سے صاف ہوجائے گا ان شاءاللہ ـ اس حالت سے کابل انتظامیہ کے اوسان خطاء ہوگئے ہیں ـ ان کے اپنے اہلکار مسلسل امارتِ اسلامیہ کی رحمدلی اور مشفقانہ رویہ سے متاثر ہوکر اسلحہ رکھ رہے ہیں جو کابل انتظامیہ کی مایوسی کے لئے کافی ہے مگر اوپر سے اپنے بیرونی آقاؤوں کے سایہ سے بھی محروم بنتے جارہے ہیں جو ان پر مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے پھیلانے کو مزید مضبوط کرتا ہےـ
کابل انتظامیہ نے اپنی مایوسی کی دلدل سے نکلنے کے لئے ایک دفعہ پھر پروپیگنڈے کو آزمانے کی کوشش شروع کردی ہےـ میڈیا کو آلہ کار بنا کر بڑے زور سے یہ چرچا کرتی ہے کہ فلاں جگہ عوامی ملیشیا تیار ہوگیا ہےـ اور فلاں جگہ عوام نے طالبان کے خلاف مسلح تحریک شروع کردی ہےـ اس کے ساتھ ہی چند فرسودہ قسم کے لوگوں کو اٹھا کر، ہتھیاروں سے مزین کرکے میڈیا اور سکرین پر پیش کردیتی ہے کہ گویا یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں غلامی کی ذلت ایک دفعہ پھر دلانا چاہتے ہیں ـ
کابل انتظامیہ بجائے معاملات سلجھانے کے ہمیشہ بگاڑنے میں کردار اداء کرتی چلی آرہی ہےـ دوحا معاہدہ میں رخنے ڈالنے سے لے کر بین الافغان مذاکرات معطل بنانے تک سب شواہد پوری دنیا کے سامنے موجود ہیں ـ اور تازہ ترین صورتحال میں ملیشیا سازی کی یہ مہم بھی اسی بگاڑ کا تسلسل ہےـ مگر ہمیشہ کی طرح اس محاذ پر بھی ناکامی شدت سے اس کا منہ چڑا رہی ہےـ کیونکہ ملیشا سازی کی مہم افغانستان کی گزشتہ سوسالہ تاریخ میں بہت سارے لوگوں نے اپنے ذاتی مقاصد کے لئے مختلف ناموں سے چلائی ہےـ کسی نے قومی لشکر سے تعبیر کیا تو کسی نے فدایانِ ملت کا نام دیاـ کبھی اسے ملیشیا کہا گیا اور کبھی مجاہدین بے مایہ کا نام دیا گیاـ کبھی اس کو “سولہ ساتی”(امن سیکورٹی فورسز) لشکر کہا گیا اور کبھی کچھ اور نام سامنے آیاـ عمومی طور پر یہ ملیشیا ان لوگوں سے تشکیل ہوتا ہے جو رضاکارانہ طور پر چند امتیازات اور پیسوں کی خاطر سرکار کی حمایت میں اٹھتے ہیں اور سرکار کی ہی حفاظت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں ـ مگر اس طرح کے ملیشیوں نے افغانستان میں انتہائی بدنما کردار اداء کیا ہےـ
۱۹۲۴ میں جب افغانستان کے حاکم امان اللہ خان کے بعض غیرشرعی کاموں کی وجہ سے افغانستان کے جنوبی علاقوں کے عوام نے احتجاج کیا تو اسے فرو کرنے کے لئے امان اللہ خان نے ایک ملیشیا تشکیل دیاـ ملیشیا کیا تھا؟ ایک خونخوار اور قاتل جماعت جو لوگون کی عزت وآبرو کا خیال کرتی تھی اور نہ ہی جان ومال کی کوئی پروا ہوتی تھی ـ امان اللہ خان کی دیکھا دیکھی اس کے بعد آنے والے حکمران حبیب اللہ کلکانی نے بھی اپنی حکمرانی بچانے کے لئے ایساہی ایک ملیشیا کا سہارا لیا ـ اس ملیشیا کی کارستانیاں اس حد تک بڑھ چکی تھیں کہ جنوبی افغانستان میں ظلم ووحشت کے لئے ایک ضرب المثل بن چکی تھیں ـ آج جبکہ ان کی کارستانیوں کو سوسال گزرنے کو ہے مگر جب بھی ظلم وستم کی مثال دی جاتی ہے تو اس کے لئے حبیب اللہ کے ملیشیا کو مستعار لیا جاتا ہےـ
۱۹۳۰ میں نادر خان نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے امن کے قیام کا خوشنما نعرہ استعمال کرتے ہوئے ایک ملیشیا تشکیل دیاـ اگرچہ بظاہر اس پر ایک دل فریب لیبل بھی لگایا گیا تھا مگر انہوں نے جو کچھ کیا اس کا نتیجہ افغانستان کے شمال اور جنوب میں قومی تعصب کی صورت میں ظاہر ہوا اور شمال وجنوب میں قومی اور لسانی بنیادوں پر ان گنت دشمنیوں کے اٹھنے کا ایک نیا باب کھل گیاـ
ملیشیا کی اس ناگفتہ بہ تاریخ کو آگے بڑھاتے ہوئے سویت یونین کے پہلے کٹھ پتلی حکمران نورمحمد ترکئی نے مزید بدتر تاریخ رقم کردی ـ چونکہ اس سے پوری قوم کو نفرت تھی اس لئے اسے ہر دم خطرہ رہتا تھا ـاس کا حل اس نے یہ نکالا کہ بہت سارے شہروں میں بہت ساری قوموں کو اسلحہ اور سرکاری حمایت فراہم کی ـ جو ایک طرف کٹھ پتلی سرکار کا دفاعی حصار بنی رہیں تو دوسری طرف ملک وملت کا تیا پانچہ کرنے لگیں ـ ان کی کوشش یہ تھی کہ “وردگ”قوم کو ہزارہ کے خلاف استعمال کرے اور ہزارہ کو وردگ کے خلاف ـ اس طرح سے غیروں کے مفادات کی خاطر اپنی قوم کو ہلاکت کے کنارے لگاتے رہے اور اس کے کئے ملیشیا کا لیبل استعمال کرتے رہےـ
۱۹۸۹ میں جب سویت یونین کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ اس کا کٹھ پتلا ڈاکٹرنجیب اللہ برسراقتدار ہوا تو اسے اپنی انتظامیہ کے قدم لڑکھڑانے دکھنے لگے ـ جس کی وجہ سے اس نے بھی اس گھناونے جرم کا اعادہ کرتے ہوئے شمال سے رشید دوستم جیسا مکار اور قوم کا قاتل اٹھا کر ملیشیا تھمایاـ جس نے غیرسرکاری علاقوں میں حکومتی ایماء پر ہر ظلم کو روا رکھاـ وحشت ودرندگی کی انتہاء کردی ـ جبکہ جنوب میں “عصمت اللہ” نامی اوباش کو کھلی چھوٹ دی ـ میرے والد صاحب اپنی آنکھوں کا مشاہدہ بتاتے ہیں کہ عصمت اللہ جس وقت قندہار میں اپنے اوباش ملیشیوں کے ساتھ مقیم تھا تو پورے شہر کی ملکیت اسی کے پاس تھی ـ حد تو یہ تھی کہ لوگ اپنی جوان بیٹیوں اور بے ریش لڑکوں کو زندہ درگور کرنے پر غور کرنے لگےـ میرے والد صاحب ہی کا کہنا ہے کہ اگر گھر میں کوئی خاتون بیمار ہوتی تو اسے شہر میں کسی ہسپتال کے جانے کی بجائے گھر میں ہی درد سے مرتے دیکھنا زیادہ بہتر رہتا تھاـ یہ تو ایک عصمت اللہ کی شہرت ہوئی ہے ورنہ تو صرف ایک قندہار میں اس کی طرح دسیوں اوباش اور لچے گھومتے تھے جنھیں ملیشیا بنا کر نجیب اللہ اپنی انتظامیہ بچانا چاہتا تھا اور یہ لوگ قوم کی زندگی اجیرن بنا رکھے تھےـ انہی کے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے تو امیرالمؤمنین ملامحمدعمر مجاہد نوراللہ مرقدہ اٹھے تھے اور جہاد فی سبیل اللہ کا علم اٹھایا تھاـ
امریکی جارحیت کے بعد جب کابل انتظامیہ اور خود امریکا کو امارتِ اسلامیہ کے قیام کے مقابلہ کی سکت نہ ہوئی تو ایک دفعہ پھر اس پرانے حربے کو آزمایاـ ۲۰۱۱ اور ۲۰۱۲ میں ایک ملیشیا تشکیل دیا گیا جس کا نام انہوں نے ‘محلی پولیس” رکھا مگر قوم میں وہ “اربکی” کے نام سے مشہور ہواـ یہ چونکہ میرے سامنے وجود میں آئے ہیں اس لئے ان کا ایک ایک کرتوت میرے سامنے ہےـ انہیں تو قوم کے محافظ کا نام دیا گیا تھا مگر ان کا ایک ادنی کارنامہ یہ تھا کہ بستی کے سرہانے کھڑے ہوکر بستی میں کسی بھی اجنبی کو دیکھتے تو مختلف ناموں سے اسے گرفتار کرلیتےـ سخت ترین سزائیں دے کر بری طرح سے قتل کردیتے اور اسی پر بھی اکتفاء نہیں پھر ان کی لاش کو خونخوار کتوں کے آگے ڈالتےـ یا اس نوعیت کا کوئی اور معاملہ کرتےـ یہ اوباش گھروں میں جاتے اور زور زبردستی ان سے کھانے کی عمدہ فرمائشیں کرتے اگر کبھی کوئی اپنی بے بسی کا اظہار کرتا تو اس کی جان اسی وقت خطرے سے نبرد آزما ہوجاتی تھی ـ اس طرز کے ہزاروں مظالم توڑتے تھے اور اب تک یہ سلسلہ چل رہا ہےـ
۲۰۱۷ میں صوبہ ہلمند میں جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور امارتِ اسلامیہ روز بروز آگے بڑھتی رہی تو کابل انتظامیہ نے اس سلسلہ کو روکنے کئے روس دور کے ایک قاتل کمانڈر عبدالجبار قہرمان کو ہلمند کا کنٹرول حوالہ کیا اور طالبان کے سامنے رکاوٹ ڈالنے پر مامور کیاـ عبدالجبار قہرمان نے آمنے سامنے لڑنے کی بجائے وہی ملیشیا سازی کا گر آزمانا چاہا اور “سُنگریان” کے نام سے پورے ہلمند سے چور،ڈاکو،للے لفنگوں اور چماروں کو جمع کیاـ انہیں اسلحہ تھما کر کھلی چھوٹ دی کہ جو ان کے جی میں آئے کرڈالے ان کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی ـ اس ملیشیا نے پھر ہلمند میں کیا کارنامے سرانجام دئیے؟ اس کا اندازہ صرف اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہلمند کے مرکز لشکرگاہ اور اس کے آس پاس کے لوگوں نے کچھ نمائندے منتخب کرکے ہلمند کے لئے کابل انتظامیہ کے گورنر کے پاس بھیج دئیے تاکہ وہاں جاکر اس قاتل “ملیشیا” کے سیاہ کرتوت کی شکایت کریں ـ یہ لوگ جب گورنر کے پاس گئے اور ان کے سامنے مظالم کی وہ داستان بیان کی جس کے لکھنے سے قلم عاجز ہے تو گورنر نے جواب میں اپنی عاجزی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس ملیشیا کے بارے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں ہےـ اس ملیشیا کو براہِ راست کابل سے احکام ملتے ہیں اور کابل سے ہی انہیں یہ اختیار ہے کہ جو جی میں آئے کرڈالےـ
حالیہ دنوں جب کہ امارتِ اسلامیہ کے مجاہدین ملک کے طول وعرض میں اپنا قدم مضبوطی جمارہے ہیں اور قدم قدم پر کامیابیاں ان کا انتظار کررہی ہیں کابل انتظامیہ نے پھر کچھ ایسا شوشا چھوڑدیا ہےـ لیکن یہ گر اس وقت بھی پہلے کی طرح ناکام ہوکر رہے گاـ کیونکہ ملیشیا کی بھاگ ڈور جن افراد کے ہاتھوں میں دی گئی ہے یہ سب وہی لوگ ہیں جو گزشتہ بیس سال سے اپنے کالے کرتوت کی وجہ سے قوم کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں ہیں ـ جن میں ایک چہرہ عطاء محمدنور کا ہے ـ جو مسلسل قوم کے قتل وتکلیف میں حصہ دار رہا ہےـ اس لئے اب وہ کس منہ سے قوم کی ہمدردی حاصل کرے گا؟
امارتِ اسلامیہ ان ملیشیوں کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی ـ اس لئے کہ امارتِ اسلامیہ کی بنیاد روزِ اول سے قوم کی ہمدردی اور ان قاتل ملیشیوں سے انہیں نجات دینے پر رکھی گئی ہےـ عوام کل کے کل ان کی پشت پر ہیں ـ عوامی حمایت ہر دم ان کے ساتھ ہےـ اس طرح کے حربے ان کے سامنے سخت ناکامی کا سامنا کریں گےـ اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں اس وقت ہورہا ہےـ کابل انتظامیہ ملیشیا سازی کا جو ڈھونگ رچارہی ہے اس کا مرکز شمال ہےـ مگر خدا کی شان کہ پورا شمال امارتِ اسلامیہ کے زیرکنٹرول آگیاـ یہاں تک کہ بدخشان جیسا صوبہ بھی جس پر امارتِ اسلامیہ کے دور اقتدار میں بھی کنٹرول نہیں تھا ـ مگر مجال ہے کہ اب تک کابل انتظامیہ کے ملیشیوں نے کوئی پر مارا ہوـ یہاں ایک اور نکتہ یہ بھی قابل ِغور ہے کہ کابل انتظامیہ نے اپنی جس فورس کو سالہاسال سے تربیت دی ہے اور ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہےـ جب وہ مسلسل سرنڈر کررہی ہےـ تو جو اوباش صرف لوٹ مار کا مشغلہ رکھتے ہیں وہ امارتِ اسلامیہ کی مقدس سپاہ کی مردانہ وار کی تاب کیسے لائیں گے؟
مگر! کابل انتظامیہ چونکہ اپنی زندگی کی آخری سانس لے رہی ہے اس لئے وہ ہوشمندی اور دانشمندی کی بجائے حواس باختہ ہورہی ہے اور ہر اقدام ایسا اٹھارہی ہے جو سراسر اس کے نقصان ہی نقصان میں پڑرہاہےـ