نومنتخب امریکی صدر کو چند کھلی باتیں

تم تیسرے امریکی صدر ہوں، جو افغان جنگ کے دلدل میں ملوث ہیں ، تمہارے اندازے کے مطابق ایک ٹریلین سے زائد امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں، مگر نہتے افغانوں کے خون بہانے اور گاؤں و باغات تباہ کرنے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں کرسکے، بلکہ عالمی سطح پر ماضی کے اعتبار سے بھی […]

تم تیسرے امریکی صدر ہوں، جو افغان جنگ کے دلدل میں ملوث ہیں ، تمہارے اندازے کے مطابق ایک ٹریلین سے زائد امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں، مگر نہتے افغانوں کے خون بہانے اور گاؤں و باغات تباہ کرنے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں کرسکے، بلکہ عالمی سطح پر ماضی کے اعتبار سے بھی محروم ہوچکے ہو، تو اس جنگ کے حل کی ذمہ داری بھی تمہارے کندھے پر ہے۔

ظاہری طور پر یہ جنگ ایک ایسے بہانے کے تحت شروع ہوئی ہے، جس میں کوئی افغان ملوث تھا اور نہ ہی اب تک یکطرفہ تحقیقات ہوئے ہیں، کہ اس کے پیچھے کون تھا۔ قابل یاد آوری ہے ، وہ افراد جو تمہیں تہذیبوں  کی جنگ کے مشورے دے رہے ہیں، وہ تہذیب اور انسانیت سے دشمنی کررہی ہے۔ اسی طرح تمہارے جنرل ماضی کی طرح تمہیں افغانستان کے متعلق غیرواقعی رپورٹیں پیش کرینگے، سابقہ صدور کو بھی ایسی ہی رپورٹیں پیش کی گئی تھیں۔ جنگ جاری رکھنے اور افغانستان کے قبضے پر اصرار کرتے رہینگے۔ وہ جنگ میں  اچھے عہدے اور کافی امتیازات حاصل کرسکتے ہیں۔ ممکن اس کےساتھ تمہارے تجزیہ نگاروں نے بھی بیس ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر افغانستان کے متعلق تجزیے آمادہ کیے ہو اور تمہیں پیش کرینگے، تجزیہ کار حضرات دہشت گردی کے سابقہ نعرے  کو بہتر سمجھیں گے، مگر ان کے اکثر تجزیے افغانستان کی حقیقی صورتحال کے برعکس ہوتے ہیں، بلکہ تمہیں مزید اس دلدل میں ملوث کرتا ہے۔

تمہیں سمجھنا چاہیے کہ افغان مسلمان عوام بیرونی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے عقیدے، ملک، انسانی کرامت اور خودمختاری سے دفاع کررہارہے ۔تم یقینا اپنے لیے آزاد ملک کا انتخاب کرتے ہو، حتی امریکہ کے ہمسائیہ ملک میں بھی کسی اور ملک کی فوجی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتے ہو، مگر مسلمان افغانوں کے اس جائزحق کے لیے کیوں قائل نہیں ہو؟ ہمارے ملک کی خودمختاری کو تم نے سلب اور افغان مسلمان عوام پر ایک کٹھ پتلی انتظامیہ کو مسلط کی ہے۔ اسی وجہ سے تم ہی جنگ کے لیے ایندھن مہیا کرتے ہو۔ افغانستان میں دہشت گردی نہیں ہے۔ یہ صرف ایک نعرہ اور دعوہ ہے۔ ہم نے 2010ء کو امریکی کانگریس کو ایک کھلا خط بھیجا تھا ، جسے اس وقت میڈیا نے  میں بھی پذیرائی ملی ۔ اس وقت ہم نے تحریر کیا تھا کہ :

“جس وقت  تم  افغانستان پرقابض ہوئے اور اس کے خلاف مسلح جہاد شروع ہوا، تم نے مخالفین کے نام سے ہزاروں افراد کو حراست میں لیے، تمہاری فوجی حکام مہربانی کریں،ان افراد میں سے صرف سو افراد کی نشاندہی کریں، کہ وہ غیرملکی ہیں۔ پھر ہم مان لیں گے، کہ افغانستان میں درحقیقت تمہارے ساتھ غیرملکی لڑ رہے ہیں”۔

اگرتم  ایک دہائی کے دوران اپنے دعوے کے لیے ثبوت پیش  نہ کرسکے، تو سمجھ جاؤ، کہ افغانستان میں جاری جنگ تمہاری جارحیت کے خلاف ایک افغانی اور اسلامی مزاحمت ہے۔ تمہارے خلاف ایک گروہ نہیں، بلکہ ایک ملت کمربستہ ہے۔ یہ مسئلہ فوجیوں کی کثرت سے حل ہوگی اور نہ ہی حل ہوئی ہے۔ امریکہ کے سابق اداروں کی گزشتہ سالوں کی تلخ تجربات نے اچھی طرح ثابت کردی ہے۔ تو بہتر یہ ہے کہ ایک معقول حل پیش کیا جائے، جارحیت کو ختم کیا جائے، خون بہانے اور تباہی کی جگہ ملکوں کی تعمیرنو اور ترقی میں تعاون کیا جائے، یہ ہمارے ملک اور علاقے میں امن وامان اور دنیا میں تمہارے اعتبار کا اعادہ کریں۔