کابل انتظامیہ کی سفاکانہ انسانی خلاف ورزياں

گزشتہ پندرہ سالوں میں استعمار اور اس کے کٹھ پتلی حامیوں نے افغان مسلمان عوام کے حق میں بہت مظالم ڈھائے، اس سلسلے میں بےتحاشا اندھی بمباریوں ، رات کے چھاپوں اور وحشتناک تشدد سے دریغ نہیں کیا۔امارت اسلامیہ نے وقتافوقتا اپنی مظلم عوام کی صدا کو عالمی برادری تک پہنچائی، اگرچہ انہوں نے ایک […]

گزشتہ پندرہ سالوں میں استعمار اور اس کے کٹھ پتلی حامیوں نے افغان مسلمان عوام کے حق میں بہت مظالم ڈھائے، اس سلسلے میں بےتحاشا اندھی بمباریوں ، رات کے چھاپوں اور وحشتناک تشدد سے دریغ نہیں کیا۔امارت اسلامیہ نے وقتافوقتا اپنی مظلم عوام کی صدا کو عالمی برادری تک پہنچائی، اگرچہ انہوں نے ایک کان سنی اور دوسرے اڑا دی۔اب ایک بہترین آغاز ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن نے گزشتہ اپریل افغانستان کے عقوبت خانوں میں قیدیوں پر تشدد کے متعلق رپورٹ شائع کی۔ اس رپورٹ میں 2015ء اور 2016ء کے دوران مختلف قیدیوں سے انٹرویوز لیے گئے تھے، ان میں اکثریت نے کہا تھا کہ قید کے دوران پر تشدد کیا گيا  اور ایسے اعترافی بیان پر دستخط یا انگوٹھا لگوایا گیا ہےکہ انہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے اور یا اسے پڑھنے نہیں دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ان تشدد کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے  جو کمانڈر عبدالرازق کی زیر نگرانی اور ہدایت کے دوران ان کے نجی عقوبت خانوں میں قیدیوں پر ڈھائے گئے ہیں۔ قندہار شہر کے لووالہ کے قریب واقع قبرستان اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، جہاں وہ شہداء دفن ہیں، جو کمانڈر عبدالرازق نے تشدد کے بعد شہید کیے  ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم اور انسانی جرائم کی عالمی عدالت کے وفود اس قبرستان اور کابل انتظامیہ کے دیگر عقوبت خانوں کو دیکھ لیے،جہاں ان ظالموں نے کتنے انسانی جرائم سرانجام دی اور دے رہے ہیں۔

ان تشدد اور جبری اعتراف نے کابل انتطامیہ کے قیدخانوں میں تمام قیدیوں کی موجودگی اور ان اعترافات کے بنیاد پر کابل انتظامیہ کی عدالتوں کے احکام کو زیر سوال لاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جو انسانی حقوق کی تحفظ کے لیے سینہ کوبی کرتے ہیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ ان جبری اعترافات کے باوجود افغانستان میں قیدیوں کے مقدمات سالوں تک عدالتوں  میں پیش نہیں کی جاتی اور معمول کے  مطابق جن قیدیوں کا معیاد پورا ہوچکا ہے، انہیں بھی رشوت کے بغیر رہا نہیں کرتے ۔

کابل نام نہاد حکام کو غور کرنا چاہیے کہ نیٹو اور امریکی جارح افواج کے بل بوتے پر اپنی ہی عوام سے جنگ لڑ رہی ہے اور اجنبی اہداف کے لیے عوام کو قربان کرکے انہیں انتقام لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ استعمار اور اس کے داخلی کاسہ لیس چاہتے ہیں کہ ایسے منحوس اعمال انجام دینے سے افغان مسلمان عوام کو ان کے حریت پسندانہ جذبے کی وجہ سے سزا دیں اور یا اسے اپنی ظالمانہ پالیسی کا ایک جزو تسلیم کریں۔  مگر ہم استعمار اور اس کے متحدین کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ  افغانوں کو زور، تشدد اور اسلحہ کی نوک پر اپنے جائز  راستے سے منحرف نہیں کرسکتے۔ یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ افغان سرزمین استعماری سلطنتوں کا قبرستان ہے۔ یہاں سالم حالت میں آئے اور  اپاہج میں چلے گئے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ استعماری ممالک مزید افغان عوام کے جائز حقوق کو جھوٹے جمہوریت اور آزادی کے نام پر پامال نہ کریں اور اس سے مایہ ناز سرزمین سے اپنی انخلاء مکمل کریں۔